پاکستانی سیاسی جماعتوں نے کمیونسٹ پارٹی آف چائینہ کے کردار کو شاندار الفاظ میں سراہا: شیری رحمان نے کہا کہ چین کی دوستی پاکستانی سیاسی جماعتوں کو متحد کرتی ہے، مشاہد حسین سید نے امریکی ’ڈیموکریسی سمٹ‘ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا،سید فخر امام کی جانب سے غربت خاتمے کے ’چائینہ ماڈل‘ سے سیکھنے کی ضروت پر زور۔
.
(اسلام آباد، 10 دسمبر): پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) نے” چینی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) کی 19ویں مرکزی کمیٹی کا چھٹا مکمل اجلاس ؛چین اور باقی دنیا کے لیے اس کی اہمیت ” کے موضوع پراپنی فلیگ شپ ایونٹ سیریز فرینڈز آف سلک روڈ(ایف او ایس آر) کے تحت اپنی نوعیت کا پہلا ویبنار کا انعقاد کیا ۔اس ویبینار میں 70 سے زائد شرکاء نے آن لائن شرکت کی اور اس میں پانچ مقررین نے اپنی تقاریر پیش کیں جن میں سینیٹ کی دفاعی کمیٹی اور پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید ، ، ڈپٹی ہیڈ چینی سفارت خانہ مس پینگ چنکسو ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری ، سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کی چیئرمین اور سینیٹ آف پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر سینیٹر شیری رحمان اور وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام شامل تھے۔
اس ڈائلاگ کی نظامت کے فرائض پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے ادا کیے۔ فرینڈز آف سلک روڈ (ایف او ایس آر) مہم پر تبصرہ کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ یہ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور اہم رائے دہندگان کو ساتھ جوڑنے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر ابھرا ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ آج کا کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی مختلف جماعتیں اور رہنما چین اور سی پیک کی بھرپور حمایت کے لیے بھرپور اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ ہم 19ویں مرکزی کمیٹی کی 6ویں مکمل اجلاس کے تاریخی قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہیں جو کہ سی پی سی کی جانب سے اپنی تاریخ میں منظور کی گئی تیسری اہم ترین قرارداد ہے جس میں سے پہلی دو چیئرمین ماؤ زے تنگ اور ڈینگ شیاؤپنگ کی قیادت میں منظور کی گئیں تھیں۔
اس کانفرنس کے مقررین نے ‘چائینہ کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی گزشتہ صدی میں پارٹی کی اہم کامیابیوں اور تاریخی تجربات پر قرارداد’ پر تبادلہ خیال کیا ۔جسے 11 نومبر 2021 کوچین کی کمیونسٹ پارٹی کی 19ویں مرکزی کمیٹی کے چھٹے مکمل اجلاس میں منظور کیا گیا اور اس میں تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی منظر نامے میں چین اور دنیا پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین نے سی پی سی کی 19ویں مرکزی کمیٹی کے تاریخی چھٹے مکمل اجلاس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتائج پالیسی کے تسلسل اور استحکام کے حوالے سے دور رس ثابت ہوں گے۔ انہوں نے امریکی انتظامیہ کی جانب سے منعقدہ ’ڈیموکریسی سمٹ‘ میں شرکت نہ کرنے کے پاکستان کے فیصلے کا خیرمقدم کیا کیونکہ اس کا ایجنڈا نظریاتی جغرافیائی سیاسی عزائم پر مبنی تھا جو کہ سرد جنگ کے دور کی طرف واپسی تھی۔ آج کے عالمگیریت کے دور میں جمہوریت کو ہتھیار بنانا غیر نتیجہ خیز ہے جب کورونا وائرس کی وبااور موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجوں کے لیے وسیع تر تعاون کے ذریعے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین نے مزید کہا کہ امریکہ کی طرف سے اہم پیغام ’’ڈیموکریسی سمٹ‘‘ نہیں بلکہ 7 دسمبر کی ہارورڈ یونیورسٹی کی رپورٹ ’’دی گریٹ ٹیک ریوالری: چین بمقابلہ امریکہ‘‘ ہے۔ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ: ‘چین نے 2020 میں 250 ملین کمپیوٹرز، 25 ملین آٹوموبائلز اور 1.5 ارب اسمارٹ فونز بنانے والے دنیا کے سب سے بڑے ہائی ٹیک مینوفیکچرر کے طور پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے’۔ سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ چین جیسے ایشیائی ملک کی یہ تکنیکی مہارت اور ترقی مغرب کی نئی سرد جنگ کی اصل وجہ ہے اور وہ اسی سبب چین کے پیچھے پڑ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: ‘چین اگلی دہائی میں میں عالمی رہنما کے طور پر امریکہ کو پیچھے چھوڑدینے کی طاقت، ہنر اور عزائم رکھتا ہے’۔ اور ہارورڈ کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ چین 21ویں صدی کی بنیادی ٹیکنالوجیز: مصنوعی ذہانت،5جی، بائیوٹیک، سیمی کنڈکٹرز اور گرین انرجی میں سرفہرست ہے۔ اس تناظر میں اور قومی مفادات کے پیش نظر سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ پاکستان تاریخ کے درست سمت میں کھڑا ہے اور پاک چین تعلقات نہ کسی منفی حکمت عملی پر مبنی ہیں نہ مفاداتی لین دین پراور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے خلاف مذہوم عزائم پر مبنی ہیں بلکہ یہ تعلقات ایک نئے علاقائی روابط کے محرک ہونے کے علاوہ معیشت، توانائی اور ماحولیات، بندرگاہوں اور پائپ لائنوں، سڑکوں اور ریلوے کے جال پر مبنی ہیں جبکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے بنیادی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ انہوں نے جولائی 2020 ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ایش سینٹر کے ایک رائے عامہ کے سروے کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’85 فیصد سے زیادہ چینی لوگوں نے سی پی سی کے کردار اور کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا’ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سی پی سی نے چینیوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں اہم کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔
چینی سفارتخانہ برائے پاکستان اسلام آباد کی منسٹر کونسلر محترمہ پانگ چنکسو نے 19ویں مرکزی کمیٹی کے چھٹے مکمل اجلاس کے اختتام کو سی پی سی کے لیے ایک اہم سنگ میل اور کامیابی قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “پارٹی کی اہم کامیابیوں اور جدوجہد کی صدی میں تاریخی تجربات کے بارے میں سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کی قرارداد” پوری پارٹی کی سوچ، ارادوں اور عزم کو مزید متحد کر دے گی۔ سی پی سی کی قیادت میں چین تاریخی تبدیلیوں سے گزرا ہے، اب استحکام حاصل ہو رہا ہے، اپنی خودمختاری کا تحفظ کر رہا ہے اور خوشحالی کو فروغ دے رہا ہے۔ انہوں نے پاک چین تعلقات کو کل وقتی، منفرد، سدا بہاراور لچکدار قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی ترقی کی کوششوں کے دوران چین کو اپنے شانہ بشانہ کھڑا پائے گا۔ آخر میں انہوں نے صدر شی جن پنگ کے موقف کی تصدیق کی جنہوں نے اکتوبر میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ فون کال کے دوران اسٹریٹجک باہمی اعتماد کو مضبوط بنانے پر زور دیا، تاکہ سی پیک کی اعلیٰ معیاری ترقی کو فروغ دیا جا سکے اور ہر شعبے میں ہمہ جہتی تعاون کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔ .
پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ سی پی سی کے طرزِ حکمرانی کے تجربات سے سیکھنے کے لیے چین کے ساتھ اسٹریٹجک رابطے کو مزید مستحکم کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک نے گزشتہ 70 سالوں میں باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم پر مبنی تعلقات کو برقرار رکھا ہے۔سی پیک پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میگا پراجیکٹ نےاپنا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کر لیا ہے اور اب اسے ایک نئی جہت سے روشناس کیا گیا ہے اور معیشت، معاشرت، ثقافت، ماحولیات اور گورننس کے میدان میں مضبوط دوطرفہ شراکت داری کے سلسلے کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھایا ہے۔
اس کانفرنس میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام نے سی پی سی کی 19ویں پارٹی کانگریس کے 6ویں مکمل اجلاس کے دوران منظور ہونے والی تاریخی قرارداد کو چین کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اہم سنگ میل چین کو نئی بلندیوں کو چھونے کی راہ ہموار کرے گا اور بنی نوع انسان کے لیے مشترکہ تقدیر کے ساتھ ایک کمیونٹی بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پی سی نے اپنے قیام کے بعد سےبدعنوانی،کرپشن ، رشوت ستانی، ٹیکس چوری، ریاستی اثاثوں کی چوری، سرکاری معاہدوں میں دھوکہ دہی اور اقتصادی معلومات کی چوری کے خلاف تحریکیں شروع کی ہیں جس سے ترقی پذیر دنیا خاص طور پر پاکستان سبق حاصل کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کی مکمل غربت خاتمے کو انفرادی مثال کے طور پر نہیں لینا چاہیے بلکہ یہ گزشتہ دہائیوں میں کی گئی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
سینیٹ آف پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر سینیٹر شیری رحمان نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کو تاریخی قرار داد منظور کرنے پر مبارکباد پیش کی جس میں طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے پارٹی قیادت کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اہم عالمی کردار کے لیے دنیا کی نظریں چین پر مرکوز ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کے ساتھ دوستی خاص طور پر سی پی سی کے ساتھ تعلقات پاکستانی سیاسی جماعتوں کو متحد کرتی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین ماؤ نے 1967 ءمیں پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت اس کی حوصلہ افزائی کی اور وزیراعظم بھٹو پاک چین دوستی کے معمار تھے۔ سینیٹر شیری رحمان نے سی پیک کو ’تبدیلی، تجدید کا ایک اہم ترین موقع اور مستقبل کے لیے بہترین امید‘ قرار دیا۔ انہوں نے صدر شی جن پنگ کے کردار کو سراہا خاص طور پر ان کے ‘چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم’ کے وژن کو سراہا اور انصاف کی فراہمی، غربت کے خاتمے اور بغیر کسی مذہوم عزائم کی ذہنیت کے ترقی کو فروغ دینے کے چینی ماڈل کی تعریف کی جبکہ انہوں نے بی آر آئی کو تعمیر و ترقی کا حامل منصوبہ قرار دیا جوپاکستان میں معاشی ترقی اور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا موجب بن رہا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے میں چین کی قیادت اور کوششوں کا خیرمقدم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
یہ ویبینار 30 منٹ کے سوال و جواب کے سیشن کے ساتھ 2گھنٹے تک جاری رہا جس میں طلباء، اسکالرز، تعلیمی اداروں ، میڈیا اور چینیوں پر مشتمل متنوع شرکاء نے بڑھ چڑھ کر شرکت کی۔