پی سی آئی ویبینار میں مقررین کی جانب سے سنکیانگ کے ضمن میں چین کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کا اظہار، امریکہ کشمیر اور فلسطین پرخاموش رہتےہوئے چین کے خلاف’سنکیانگ کارڈ‘کھیل رہا ہے،ڈاکٹر شیریں مزاری
.
(اسلام آباد، 20 جنوری2022ء): پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ(پی سی آئی) نے اپنی فلیگ شپ ایونٹ سیریز فرینڈز آف سلک روڈ(ایف او ایس آر) کے تحت “نئی سرد جنگ؟ چین کے خلاف سنکیانگ کارڈ کھیل” کے موضوع پر اپنی نوعیت کا پہلا ویبینار منعقد کیا ۔ اس ویبینار میں آن لائن 35 سے زائد شرکاء نے شرکت کی اور اس میں چھ تقاریر پیش کی گئیں جن میں رحمت اللعالمین اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز اکرم، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، شینگوا یونیورسٹی بیجنگ میں سنٹر فار پاکستان کلچرل اینڈ کمیونیکیشن سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر لی زیگوانگ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی امور علامہ طاہر اشرفی ، اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف کنفلیکٹ ریزولوشن کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹرصبا اسلم اور سینیٹ دفاعی کمیٹی اور پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سیدشامل تھے۔
اس ڈائلاگ کی نظامت کے فرائض پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے ادا کیے۔ انہوں نے اس موقع پر کہاکہ امریکہ نے انسانی حقوق کو ہتھیار بنا دیا ہے اور وہ انسانی حقوق کے اصولوں کو پامال کرنے میں مصروف ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو سنکیانگ پر چین کی حمایت جاری رکھنی چاہیے کیونکہ چین نے ہمیشہ اپنے بنیادی مفادات پر پاکستان کی حمایت کی ہے۔
پینلسٹس نے اس موقع پر ان نکتہ جات پر تبادلہ خیال کیا کہ ‘سنکیانگ کارڈ’ کو مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ‘ایغور جبری مشقت کا بل’ جیسے قوانین اور ہانگ کانگ، تائیوان اور تبت سے متعلق دیگر قانون سازی اور پالیسیاں ایک بڑی ‘چین کنٹینمنٹ’ پالیسی کا حصہ ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز اکرم نے اس دوران کہا کہ سنکیانگ کا مسئلہ ایک فلیش پوائنٹ ہے جسے مغربی طاقتیں مسلم دنیا کے بعض حصوں کو چین کے خلاف متحد کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی آئی اے کی ایک تاریخ ہے کہ وہ رنگین انقلابات کے ذریعے ممالک کو بلیک میل کر تارہا ہے جیسا کہ اس نے شام، لیبیا جیسے ممالک میں کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان تذبذب کا شکار ہے۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ سچائی کے ساتھ چین کے مفادات کے تحفظ اور خطے کے تحفظ کی جستجو میں اس کی حمایت کرے۔
اس ویبینار میں ایک مختصر ویڈیو پیش کی گئی جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح امریکہ نے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، جسے اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد تنظیم کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست سے نکالنے کی سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کی۔ اس کے علاوہ چند دہائیوں سے مسلم دنیا میں خانہ جنگی میں ملوث رہنے کے باوجود امریکہ کی جانب سےچین کو متنازع بنانے کی مہمات پر روشنی ڈالی گئی۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے اس موقع پر کہا کہ امریکہ کووڈ- 19 کی وبا کے دوران چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ شروع کرنے میں ملوث ہے جس کے لیے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ نے ‘سنکیانگ کارڈ’ استعمال کرتے ہوئے چین پر پابندی لگانے کے لیے ایغور جبری مشقت کی روک تھام کے قانون جیسے قوانین بنائے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ امریکہ بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کی نسل کشی کے خلاف کارروائی کرنے میں کیوں ناکام رہا؟ انہوں نے سوال کیا کہ امریکہ اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنے کے خلاف بات کرنے میں کیوں ناکام رہا؟ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ اپنی سامراجی روش کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر طاقت کھو رہا ہے۔ اس نے فوجی اتحاد،اے یو کے یو ایس بھی بنایا، جس کا مرکز ایشیا پیسیفک خطے میں چین کا مقابلہ کرنا تھا۔ جنوبی ایشیا میں چین کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں بڑے پیمانے پر فوجی ہارڈویئر کی آمد اور فوجی تعاون شامل ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکہ نئی سرد جنگ کا خواہاں ہے اور عالمی سیاست کے ساتھ ساتھ معاشیات کو عسکری بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ چین اقتصادی خوشحالی کو فروغ دینے اور پاکستان اور افریقی ممالک میں تجارتی راستوں اور انفراسٹرکچر کے ذریعے دنیا میں رابطہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہےتاکہ تمام ممالک بین الاقوامی تجارت کے ذریعے ترقی کر سکیں۔ پاکستان کو ایک چیلنج کا سامنا ہے کہ آیا وہ معاشی خوشحالی کی طرف بڑھے گا جو کہ اب پاکستان کی قومی سلامتی کی پالیسی کا ایک مرکزی معیار ہےیا وہ امریکہ کی طرف سے دھکیلنے والی عسکریت پسندی کا شکار ہو جائے ۔مگر دانش مندانہ راستہ سلک روٹ، بی آر آئی اور سی پیک منصوبے کے ذریعے بین الاقوامی تجارت کے ذریعے دنیا میں رابطہ کاری کی حمایت کرنا ہے۔ ڈاکٹر شیریں نے نتیجہ اخذ کیا کہ مسلمانوں نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور عسکریت پسندی کے نتائج بھگت لیے ہیں اور وہ اس راستے پر جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اس موقع پرشینگوا یونیورسٹی بیجنگ میں سنٹر فار پاکستان کلچرل اینڈ کمیونیکیشن سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر لی زیگوانگ نے کہا کہ مغرب کنفیوشس اور اسلامی تہذیبوں کے درمیان اتحاد سے خوفزدہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مغرب کا ’سنکیانگ کارڈ‘ کھیلنے کا مقصد چین کو تقسیم اور کمزور کرنا اور چین اور پڑوسی مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔ مغرب سنکیانگ کو ایک اور افغانستان میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ کے برعکس جو میدان جنگ میں ناکامی کے باوجود افغانوں کے درمیان اتحاد نہیں دیکھنا چاہتا۔چین افغان عوام کی ثقافت اور مذہب کا احترام کرتا ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی امور علامہ طاہر اشرفی نے اس ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، چین اور سعودی عرب میں مذہبی آزادی کے فقدان سے متعلق امریکہ کی جانب سے بل یا بیانات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ یہ بیانات حقیقت پر مبنی ہونے کے بجائے سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے اور سنکیانگ پر چین پر بے جا تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کو اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دینی چاہیے پھر دوسرے ممالک پر تنقید کرنی چاہیے۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ مختلف ممالک کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت تباہی کا باعث بنی ہے۔ انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیا کہ وہ مذہبی آزادی کی کمی کے بیانیے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے حقائق پر نظر رکھے اور گفت و شنید کا راستہ ہموار کرے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ چین کے حوالے سے پاکستانی عوام، حکومت اور مذہبی جماعتوں کا موقف یہ ہے کہ وہ امریکی پروپیگنڈے سے قطع نظر پاکستان کا بہترین دوست اور پڑوسی ہے۔
اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف کنفلیکٹ ریزولوشن کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹرصبا اسلم نے اس دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سیاست میں مغربی دنیا جو استعماری ذہنیت رکھتی ہے دوسروں کو متنازع بنانے کے لیے بیانیے اور پابندیوں کو بطورِ ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ ہمیشہ یکطرفہ پابندیاں لگاتا ہے، جسے زیادہ موثر ہتھیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ چین اور امریکہ فوجی تنازعہ میں شامل نہیں ہوں گے کیونکہ وہ اقتصادی سطح پر لڑیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کمزور نہیں ہے۔وہ امریکی پابندیوں سے محفوظ ہے کیونکہ امریکہ پابندیوں اور دباؤ کو لاگو کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ چین کو تحقیقی خلاء کے ذریعے ان خرافات اور غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے فعال اقدامات کرنے چاہئیں۔
سینیٹ دفاعی کمیٹی اور پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سیدنے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا میں سیاسی اور معاشی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ انہوں نے پروفیسر جیفری سیچس سے اتفاق کیا جن کا خیال ہے کہ امریکہ اقتصادی طور پر چین کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہا۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلیسن کی ایک تحقیق کا بھی حوالہ دیا کہ چین نے امریکہ کو دنیا کے سب سے بڑے ہائی ٹیک مینوفیکچرر کے طور پر مات دی ہے۔ انہوں نے اسے ایک حالیہ رپورٹ سے جوڑ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ چین نے 2021 میں کووڈ-19 وبا کے باوجود 8 فیصد ترقی کی۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی مخالفت کے باوجودامریکہ نے اپنا کاپی کیٹ پروجیکٹ بلٹ بیک بیٹر ورلڈ شروع کیا۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز میں لیسلی ایچ گیلب کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس کا عنوان تھا ‘بریکنگ چائنا اپارٹ’، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر چین امریکہ کے دام میں نہیں آتا تو وہ ‘چین میں علیحدگی پسندی کو بھڑکا دے گا’ اور اسے متنازع بنانے، نقصان پہنچانے ، تباہ کرنے اور عدم استحکام کے لیے ہر حربہ اپنائے گا۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے ایش سینٹر کے جولائی 2020 کے سروے پر روشنی ڈالی جس کے مطابق 90 فیصد سے زیادہ چینی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس نے چینی عوام کو استحکام، تسلسل، امن اور استحکام فراہم کیا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ امریکہ دراڑیں پیدا کرنے اور تصادم کی حوصلہ افزائی کرنے میں مصروف ہے مگرپاکستان چین کےقومی مفادات سنکیانگ، تائیوان، تبت، ہانگ کانگ، جنوبی بحیرہ چین اور بی آر آئی کے ضمن میں چین کی بنیادی حمایت جاری رکھے گا۔
یہ ویبینار 90 منٹ تک جاری رہی۔ تقاریر کے بعد دو شرکاء کے تبصرے پیش کیے۔ ایمبیسڈر مسعود خالد نے تبصرہ کیا کہ مغرب کا مقصد چین کے ان علاقوں میں ڈومینو اثر جاری کرنا ہےجیسا کہ سنکیانگ جسے وہ کمزور کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ اگر سنکیانگ غیر مستحکم ہوا تو اس سے سی پیک اور بی آر آئی کو خطرہ ہو گا۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز میں ٹام فریڈمین کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس نے 20 سال قبل چین کے ٹوٹنے کی پیش گوئی کی تھی جبکہ بعد میں عوامی سطح پر اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ مزید برآں ، روانڈا سے تعلق رکھنے والے جیرالڈ مبانڈا نے افریقی تناظر میں استعمار کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس کا موازنہ افریقی ممالک کے ساتھ چین کی دوستی اور ان کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری سے کیا۔ اس ویبینار میں طلباء، اسکالرز اور میڈیا کے متنوع سامعین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
بیجنگ میں ماہر افرادی قوت کی تیاری’ روشن مستقبل کی تعمیر کے حوالے سیووکیشنل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ فورم کا انعقاد
ماہر افرادی قوت کی تیاری’ روشن مستقبل کی تعمیر کے حوالے سے چین پاکستان ٹیکنیکل اینڈ …