سی پیک کے سبب بلوچستان کےغیرمتحرک شعبے فعال ہونگے
.
سی پیک میں بلوچستان کوریڑھ کی ہڈی کی حیثیت قرار دے دیا گیا ہے مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ بلوچستان کو گوادر بندرگاہ ہی محدود نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بلوچستان 51 مختلف دھاتی اور غیر دھاتی معدنیات سے مالا مال ہے جن میں سے 29 سونے ، تانبے ، کرومائٹس ، آئرن اور زنک پر مشتمل ہیں۔ پاکستان ان معدنی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بلوچستان میں 90 فیصد چیری ، انگور اور بادام کی پیداوار ہوتی ہے۔ جس میں70فیصد کھجوریں اور60فیصد انار ، آڑو اور خوبانی شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے اسے “پاکستان کی پھلوں کی ٹوکری” کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے ابھی تک بلوچستان کی مدد سے معیشت کو مستحکم کرنے کے مواقعوں سے بھرپور استفادہ حاصل نہیں کیا۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے کیکڑے ، لابسٹر اور کٹل فش کے حوالے سے بھی مالامال ہیں۔ تاہم 10فیصد سمندری غذا سےہی استفادہ کیاجاتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کا شمار دنیا کے چھٹے سب سے بڑے مینگروز خطوں کے طور پر بھی ہوتا ہے جو برآمداتی آمدنی میں سالانہ 4 بلین امریکی ڈالر کا حصہ ڈالتا ہے جبکہ بلوچستان کی آب و ہوا اسے حلال گوشت کی صنعت کا مرکز بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان کوبلوچستان کےمہر گڑھ جیسے آثار قدیمہ وتاریخی مقامات جن کا پاکستان کی قدیم ترین تہذیب ہونے کے حوالے سے دعوٰی کیا جاتا ہے کی تجدید اور تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ جبکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحت کو فروغ دینے کے لئے پاکستان کو بلوچستان میں سمندری ساحل مزید دلکش بنانا ہوگا۔ خصوصاََ گوادر میں اہم ساحلی مقامات ہیمر ہیڈ ، اورمارا اور آسٹولا جزیرہ جو پسنی میں واقع ہیں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جبکہ متذکرہ توجہ طلب شعبے نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں یہ نہایت خوش آئیند بات ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے کے تحت حکومت نے معدنیات ، زراعت اور ماہی گیری کے شعبے کو فروغ دینے کا عزم کیا ہے۔