پارلیمنٹرینز نے تھر،سندھ میں منصوبوں کے دورے کے دوران سی پیک کو سراہتے ہوئے اسے انرجی سیکیورٹی کا ضامن قرار دیا، مشاہد کا کہنا ہے کہ ‘آئی ایم ایف پر مستقل انحصار کے بجائے قومی معیشت کی بحالی کے لیے پاکستان کی قدرتی دولت اہم ہے’
Enter Your Summary here.
اسلام آباد، 5 فروری:
سندھ میں سی پیک پراجیکٹس کا دورہ کرنے والے اراکین پارلیمنٹ نے تھر کو ‘پاکستان کے مستقبل کی انرجی سیکیورٹی کا مضبوط ضامن’ قرار دیا۔ وفد کا اہتمام پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ (پی سی آئی) نے پورٹ قاسم میں پاور چائنا اور تھر میں شنگھائی الیکٹرک اور سندھ الیکٹرک کول مائننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی) کے تعاون سے کیا تھا نیز پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ نے سی پیک کے 10 سال مکمل ہونے پر یہ اقدام اٹھایا تھا۔
وفد کی قیادت سینیٹر مشاہد حسین سید، چیئرمین سینیٹ دفاعی کمیٹی اور پی سی آئی کر رہے تھے۔ 3 روزہ دورے کے دوران وفد نے سب سے پہلے پورٹ قاسم پر پاور چائنا پروجیکٹ کا دورہ کیا جو 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ پاور چائنا کے سی ای او گو نے وفد کا خیرمقدم کیا اور انہیں منصوبے کے بارے میں بریفنگ دی۔
پورٹ قاسم پاور پلانٹ، سی پیک کا ایک ارلی ہارویسٹ پروجیکٹ ہے جوصاف توانائی کے ذریعے 40 لاکھ سے زیادہ گھروں کو بجلی فراہم کرتا ہے اور یہ سپر کرٹیکل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ماحول دوست سفید دھواں خارج کرتا ہے۔ اس منصوبے نے ملازمتیں پیدا کیں، پاکستان کو ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی مد میں 600 ملین ڈالر سے زائد کی آمدنی فراہم کی اور پاکستان کی توانائی کی دائمی قلت کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پھر سندھ سی پیک پراجیکٹس کے دورے کے دوسرے دن وفد نے تھر کا دورہ کیا جہاں اس نے سب سے پہلے سندھ الیکٹرک کول مائننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی) کا دورہ کیا، جو کہ سندھ حکومت اور چین کے تعاون سے ایک مشترکہ نجی عوامی شراکت داری ہے، اس دوران خواتین کی ڈمپر ٹرک ڈرائیونگ کا مشاہدہ کیا گیا اور یہ خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ وفد نے شنگھائی الیکٹرک کی سرمایہ کاری سے نئے قائم ہونے والے 1320 میگاواٹ کے پاور پلانٹ کا بھی دورہ کیا۔ چین کی کل سرمایہ کاری 26 بلین ڈالر رہی ہے، جس سے 85,000 ملازمتیں پیدا ہوئیں، جن میں تھر میں 12,000 شامل ہیں، اس کے علاوہ اب 28,000 پاکستانی طلباء چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سی پیک کی بدولت ملک میں ایک بہت بڑی سماجی و اقتصادی تبدیلی آئی ہے۔ نیشنل گرڈ میں 5000 میگا واٹ سے زیادہ بجلی شامل کی گئی ہے اور تقریباً 700 کلومیٹر سڑک کے بنیادی ڈھانچے نے فیڈریشن آف پاکستان کو آسان اور تیز رفتار سفر کی سہولت فراہم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔
پورٹ قاسم اور تھر میں سی پیک کے پراجیکٹس کے اہلکاروں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے سی پیک کو گزشتہ 30 سالوں میں اقتصادی ترقی کے لیے واحد سب سے زیادہ تبدیلی کا حامل اقدام قرار دیا، کیونکہ اس نے انرجی سیکیورٹی، روزگار اور زندگی اور معاش کو بدلنے کی بنیاد فراہم کی۔ سینیٹر مشاہد حسین نے مزید کہا کہ پاکستان میں معدنی دولت، قدرتی گیس اور آبی دولت سمیت بے پناہ قدرتی وسائل موجود ہیں جنہیں بلیو اکانومی کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف تھر میں 175 بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جو ایران اور سعودی عرب کے تیل کے ذخائر سے زیادہ ہیں۔ سی پیک کی بدولت یہ ’کالا سونا‘ اب قومی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
خیبرپختونخوا میں قدرتی گیس کے ذخائر سوئی میں موجود ان ذخائر سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ سینیٹر نے مزید کہا، ‘اگر ہم اپنی معدنی دولت، قدرتی گیس اور آف شور بلیو اکانومی کا صحیح معنوں میں فائدہ اٹھاتے ہیں، جس کی مجموعی مالیت تقریباً ایک ٹریلین ڈالر ہے، تو پاکستان آئی ایم ایف کے ہینڈ آؤٹس کو خیر باد کہہ سکتا ہے جو ہمیں 23 بار موصول ہو چکے ہیں، انہوں نے قومی خود مختاری اور عوام کے وقار کو مجروح کرنے والی پالیسیوں کے بجائے قومی اقتصادی ترجیحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے ضامن کے طور پر سراہتے ہوئے چین کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ایک قابل اعتماد ‘ سدا بہار دوست’ کی حیثیت سے پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر کے پاکستان کے مستقبل پر اس طرح کے اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ انہوں نے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (سی ایس آر) کے ذریعے لوگوں پر مرکوز ترقی کو فروغ دینے میں ان کمپنیوں کے کردار کی بھی تعریف کی۔
پارلیمانی وفد میں مہیش میلانی، ایم این اے، وزیر مملکت برائے صحت، سینیٹر ڈاکٹر زرقا سہروردی، قیصر شیخ،ایم این اے،چیئرمین قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی، سینیٹر قرۃ العین مری، محمد ابوبکر ایم این اے، چیئرمین قومی اسمبلی کی پارلیمانی امور کمیٹی اورسینیٹر محمد اکرم بلوچ شامل تھے۔
سینیٹر قرۃ العین مری نے کہا، “مقامی کمیونٹیز پر سی پیک کے اثرات اور ان منصوبوں پر ہونے والی پیش رفت کو دیکھنا ایک آنکھ کھولنے والا تجربہ تھا”۔
ڈاکٹر مہیش کمار میلانی، وزیر مملکت برائے صحت نے مزید کہا، “اس دورے سے ہمیں سی پیک کے ذریعے پاکستان کے لوگوں کے لیے پیدا کیے گئے فوائد اور مواقع کے بارے میں گہرا ادراک ہوا۔ منصوبے زندگیوں کو بدل رہے ہیں اور سب کے لیے ایک روشن مستقبل فراہم کر رہے ہیں”۔
سینیٹر محمد اکرم نے کہا، “مجھے اس وفد کا حصہ ہونے پر فخر ہے جو فرسٹ ہینڈ سی پیک کی پیشرفت اور کامیابی کا مشاہدہ کر نے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ یہ پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط تعلقات اور ہمارے دونوں اقوام کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے عزم کا ثبوت ہے”۔
سینیٹر ڈاکٹر زرقا سہروردی تیمور نے ریمارکس دیئے، “وفد کا دورہ مقامی کمیونٹیز خصوصاً خواتین کے لیے پراجیکٹس کے مثبت اثرات کو
دیکھنے کا ایک منفرد موقع تھا۔ تھر کے کوئلے کی کانوں میں خواتین کو ڈمپر ٹرک چلاتے دیکھنا متاثر کن تھا”۔
قیصر احمد شیخ، ایم این اے، نے کہا، ” سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر ہے اور ہمارے پروجیکٹوں کے دورے سے ہونے والی پیشرفت سے بخوبی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام اس پراجیکٹ کے سبب پیدا ہونے والے مواقعوں سے خوش ہیں۔
محمد ابوبکر، ایم این اے نے مزید کہا، “وفد کا دورہ سی پیک کے تحت منصوبوں کی کامیابی کو اجاگر کرنے میں ایک اہم پیش رفت۔ مجھے
اس وفد کا حصہ بننے پر خوشی ہے جو ہمارے لوگوں پر ان منصوبوں کے مثبت اثرات کا مشاہدہ کر نے کا موقع فراہم کررہا ہے”۔
اس دورے کی کوآرڈنیشن پی سی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے کی ۔ ان کا حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس دورےکا مقصد ’’دور دراز کے علاقوں میں سی پیک کی طرف سے لائی گئی مثبت تبدیلی اجاگر کرنے کے ذریعے سی پیک کی کامیابی کی تصویر کے اصل رخ
کو منظر عام پر لانا ہے‘‘۔