Home Latest News Urdu پاکستان ابھرتا ہوا علاقائی روابط کا مرکز – صدر مملکت آصف علی زرداری نے گوادر کو روشن مستقبل کا ضامن قرار دیا، مشاہد حسین سید نے ٹرمپ کے اقتصادی وژن کو سرد جنگ سے متصل نہ ہونے کے سبب قابلِ تعریف قرار دیا
Latest News Urdu - February 18, 2025

پاکستان ابھرتا ہوا علاقائی روابط کا مرکز – صدر مملکت آصف علی زرداری نے گوادر کو روشن مستقبل کا ضامن قرار دیا، مشاہد حسین سید نے ٹرمپ کے اقتصادی وژن کو سرد جنگ سے متصل نہ ہونے کے سبب قابلِ تعریف قرار دیا

اسلام آباد، 18 فروری:
اسلام آباد کے اہم تھنک ٹینک پاکستان-چائنا انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) کے زیر اہتمام “علاقائی روابط اور پاکستان: ابھرتے ہوئے مواقع” کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں اعلیٰ سرکاری عہدیداران، سفارتکاروں، کاروباری رہنما اور ماہرین نے شرکت کی تاکہ پاکستان کے علاقائی روابط، تجارتی توسیع اور سرمایہ کاری کے مواقع میں اہم کردار پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ تین سیشنز پر مشتمل اس کانفرنس نے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، خلیج اور چین کے درمیان پاکستان کے اسٹریٹجک اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اہم موضوعات پر گفتگو کا موقع فراہم کیا۔

کانفرنس کی نظامت پاکستان-چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے ادا کیے جنہوں نے ایک غیر مستحکم ہمسائیگی میں پاکستان کی ثابت قدمی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ شدید معاشی زوال کے باوجود، کلیدی اشاریے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک بتدریج ترقی کی سمت میں واپس آ رہا ہے۔ انہوں نے دنیا کے نقشے پر پاکستان کی تزویراتی حیثیت اور اس کی آبادیاتی صلاحیت پر زور دیا یہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 60 فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر پر مشتمل ہے جو ملک کے لیے ترقی اور پیشرفت کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید، چیئرمین پاک-چائنا انسٹیٹیوٹ نے اپنے ابتدائی کلمات میں پاکستان کے کلیدی کردار کو ایک علاقائی رابطہ مرکز کے طور پر اجاگر کیا جو جنوبی ایشیا، چین، وسطی ایشیا اور خلیج کو آپس میں جوڑتا ہے۔ انہوں نے سی پیک کی کامیابیوں کو نمایاں کیا جس نے 26 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے، جس سے پاکستان کے معاشی منظرنامے میں تبدیلی آئی ہے، جبکہ گوادر بندرگاہ اور نو تعمیر شدہ گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے کو اہم علاقائی ٹرانزٹ مراکز کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی تزویراتی اہمیت پر زور دیتے ہوئے قائداعظم کے وژن کا حوالہ دیا، جنہوں نے ملک کو “دنیا کا محور” قرار دیا۔ انہوں نے جموں و کشمیر جیسے دیرینہ تنازعات اور آبادی میں اضافہ جیسے چیلنجز کو تسلیم کیا جو 2050 تک پاکستان کی آبادی کو 35 کروڑ تک پہنچا سکتا ہے۔ انہوں نے تجارت، نقل و حمل، سیاحت اور ٹیکنالوجی کو رابطے کے کلیدی شعبے قرار دیا۔

افتتاحی اجلاس میں علی پرویز ملک، وزیر مملکت برائے خزانہ، نے کلیدی خطاب کیا۔ معزز شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اقتصادی انضمام کو مزید گہرا کرنے، چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے انقلابی اثرات، اور مشرق و مغرب کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے پل کے طور پر پاکستان کے کردار کی اہمیت پر زور دیا۔ سی پیک کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا: “سی پیک محض ایک بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ نہیں ہے—یہ اقتصادی خوشحالی، صنعتی ترقی، اور علاقائی استحکام کے لیے ایک خاکہ ہے۔ اس نے ہمارے توانائی کے شعبے کو نئی زندگی بخشی، لاجسٹکس کو جدید بنایا، اور ہزاروں ملازمتیں پیدا کیں، جس سے پاکستان کو علاقائی روابط میں صف اول میں کھڑا کیا۔”

وزیر کے خطاب کے بعد مرکزی اجلاس میں عالمی ماہرین اور پالیسی سازوں کے ایک معزز پینل کو اکٹھا کیا گیا۔ مقررین میں ڈاکٹر رفیق دوسانی، ڈائریکٹر رینڈ سینٹر برائے ایشیا پیسیفک پالیسی، محترمہ یان روی، سیکرٹری جنرل یورپ-ایشیا سینٹر، سفیر سہیل محمود، ڈائریکٹر جنرل ادارہ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی)، اور قازقستان کے سفیر یرژان کستافن سمیت دیگر شامل تھے۔
چین کے صوبہ سنکیانگ میں قائم یورپ-ایشیا سینٹر کی سیکرٹری جنرل محترمہ یان روی نے یورپ اور ایشیا کے درمیان علاقائی روابط کی تشکیلِ نو میں ثقافتی اور ماحولیاتی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ یورپی یونین کے مرکز برسلز میں قائم یہ تنظیم سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی روابط کو مستحکم کرنے کے لیے علمی فورمز، کاروباری روابط اور ثقافتی اقدامات کے ذریعے کام کر رہی ہے۔
قازقستان کے سفیر، یرزہان کیسٹافن نے اس بات پر زور دیا کہ خطے کی خوشحالی کے لیے رابطہ کاری اولین ترجیح ہے۔ ایک عالمی نقشہ پیش کرتے ہوئے، انہوں نے وسطی ایشیا کو مواقع کی سرزمین کے طور پر نمایاں کیا اور علاقائی رابطہ کاری کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے تین اہم مواقع کی نشاندہی کی: پہلا، قازقستان، پاکستان اور دیگر وسطی ایشیائی جمہوریہ کے درمیان روابط کو گہرا کرنا؛ دوسرا، بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے پاکستان کو ایک گیٹ وے کے طور پر استعمال کرنا؛ اور تیسرا، بین البرِاعظمی ممالک کے درمیان روابط کو فروغ دینا۔ عملی اقدامات کے عزم کو اجاگر کرتے ہوئےانہوں نے ان اہداف کے حصول کے لیے پہلے سے شروع کیے گئے کئی اقدامات کا حوالہ دیا۔

ایمبیسڈر رابن رافیل، سابق امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور، نے ایشیا اور یورپ میں سپلائی چینز کو مضبوط اور محفوظ بنانے میں امریکہ کی دلچسپی کو اجاگر کیا اور پاکستان کے اسٹریٹجک محل وقوع کو عالمی نقشے پر ایک اہم اثاثہ قرار دیا۔ انہوں نے بطور معاون وزیر خارجہ اپنے کردار کا حوالہ دیا جس کے تحت انہوں نے علاقائی روابط کو فروغ دیا۔
ایوانِ صدر میں منعقدہ اختتامی اجلاس کے دوران سینیٹر مشاہد حسین نے صدرِ پاکستان اور دیگر معزز مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی اہمیت کو اجاگر کیا اور 2013 میں گوادر پورٹ کی بحالی میں صدر آصف علی زرداری کی خدمات کو سراہا جو اب سی پیک کا مرکز ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین نے تین نئی حقیقتوں کا حوالہ دیا جو پاکستان کی علاقائی روابط کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رہی ہیں۔ اول، گوادر پورٹ کا کردار بطور علاقائی روابط کا مرکز، جس کے ذریعے تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، کرغیزستان اور قازقستان جیسے وسطی ایشیائی ممالک کو لینڈ لاکڈ سے لینڈ لنکڈ ممالک میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ دوم، بنگلہ دیش میں طلبہ انقلاب اور سری لنکا، مالدیپ اور نیپال میں انتخابات کے بعد جنوبی ایشیا کا بدلتا ہوا منظرنامہ، جس کے نتیجے میں ایسی حکومتیں قائم ہوئی ہیں جو پاکستان کے ساتھ علاقائی اقتصادی روابط کے لیے اہم ہیں۔ سوم، امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ، جو تمام جنگوں کے خاتمے اور کسی بھی نئی سرد جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے بنیادی طور پر ایک معاشی ویژن رکھتی ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین نے مزید کہا کہ اس علاقائی رابطے کی بنیاد وہ عوامی تعلقات ہیں جو ممالک اور خطے کو جوڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال 5000 آئل ٹینکرز اور 50,000 مال بردار جہاز پاکستان کی بین الاقوامی آبی گزرگاہوں سے گزرتے ہیں۔ 2024 میں 132,000 پاکستانی سیاح ترکی گئے اور 72,000 پاکستانی سیاح آذربائیجان گئے۔

کانفرنس میں ایک اہم کتاب “کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ – انسائٹس اینڈ سکسسز” کا اجراء کیا گیا جو پاکستان کے پہلے بڑے پیمانے پر سی پیک ہائیڈرو پاور منصوبے پر مبنی ہے۔ سی ایس اے آئی ایل کے سی ای او ژو کیانگ نے اس بات پر زور دیا کہ کروٹ منصوبہ، جسے جزوی طور پر ورلڈ بینک کے آئی ایف سی نے مالی اعانت فراہم کی، کووڈ-19 کے چیلنجز کے باوجود مقررہ وقت سے پہلے مکمل کیا گیا جو مستقبل کے توانائی منصوبوں کے لیے ایک معیار قائم کرتا ہے۔ اس منصوبے نے 10 ارب روپے کے ٹیکسز، سالانہ 675 ملین روپے واٹر یوز چارجز (ڈبلیو یو سی)ور ہزاروں ملازمتوں میں حصہ ڈالا۔ اس نے اسکالرشپس، بنیادی ڈھانچے اور صاف پانی کے اقدامات کے ذریعے کمیونٹی کی ترقی میں بھی تعاون کیا۔ ژو کیانگ نے پائیدار توانائی کے فروغ اور قابل تجدید توانائی میں عالمی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے پاکستان-چین تعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔

پاکستان-چائناانسٹی ٹیوٹ (پی سی آئی) نے دو اہم تحقیقی رپورٹس جاری کی ہیں جو مکالمے کو نئی شکل دیتی ہیں اور معاشی امکانات کے نئے افق کو اجاگر کرتی ہیں: سی پیک: حقائق بمقابلہ مفروضات اور پاکستان میں سکھر-ملتان موٹروے کے ساتھ مذہبی سیاحت کی سپلائی چین: ایک مطالعاتی جائزہ۔ پہلی رپورٹ سی پیک کے گرد پھیلائی گئی غلط معلومات کو بے نقاب کرتی ہے اور حقائق پر مبنی تجزیے کے ذریعے اس کی اسٹریٹجک اور معاشی اہمیت کو مستحکم کرتی ہے۔

دوسری رپورٹ جو پی سی آئی کے محققین مصطفیٰ حیدر سید اور عمر فاروق اور امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے ڈاکٹر رفیق دوسانی اور زوہان طارق نے تحریر کی ہے اور جسے رینڈ شائع کرے گا پاکستان کے مذہبی سیاحت کے شعبے پر ایک جامع تحقیق پیش کرتی ہے، جو سکھر-ملتان موٹروے کے ساتھ موجود اہم مواقع کی نشاندہی کرتی ہے۔ رینڈ جو امریکہ کا ممتاز تھنک ٹینک ہے کی جانب سے اس رپورٹ کی اشاعت پاکستان کی روایتی شعبوں سے ہٹ کر معاشی صلاحیت کے عالمی

Comments Off on پاکستان ابھرتا ہوا علاقائی روابط کا مرکز – صدر مملکت آصف علی زرداری نے گوادر کو روشن مستقبل کا ضامن قرار دیا، مشاہد حسین سید نے ٹرمپ کے اقتصادی وژن کو سرد جنگ سے متصل نہ ہونے کے سبب قابلِ تعریف قرار دیا

Check Also

صدر آصف علی زرداری کی 9 ویں ایشین ونٹر گیمز کی افتتاحی تقریب میں شرکت۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے چین کے صوبے ہیلونگ چیانگ کے شہر ہاربن میں9 ویں ایشین ونٹر گیمز…