کورونا وائرس کی ابتدا کےموضوع پرمنعقدہ پی سی آئی ویبینار:ایمبیسڈرمنیر اکرم کی جانب سےکووڈ-19کی ابتدا کے حوالے سے حقائق کو کسی بھی تعصب اور سیاست سےدور رکھنے کی ضرورت پر زور ؛سینیٹر مشاہد حسین سید نے چین کی ڈیمونائزیشن کو مسترد کرتے ہوئے سرحدوں سے ماورا ویکسینیشن مہم کو آگے بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا
۔
۔26اگست، 2021: پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) نے اپنی فلیگ شپ ایونٹ سیریز شاہراہِ ریشم کے دیرینہ دوست کے تحت “کووڈ -19 کی ابتدا اور بین الاقوامی تعاون” کے موضوع پر ایک ویبینار کا انعقاد کیا۔اس ویبینار میں کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے مختلف رپورٹس اور تجزیوں کا جائزہ لیا گیا جبکہ اس ویبینار میں 50 سے زائد شرکاء نے آن لائن شرکت کی اور اس میں پانچ انتہائی معزز مقررین پر مشتمل پینل شامل تھا ۔ جس میں چین میں خدمات سرانجام دینے والی سابق پاکستانی سفیر نغمانہ ہاشمی ، چیئرمین سینیٹ کمیٹی برائے دفاع اور پی سی آئی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید ، پبلک پالیسی کے ماہر حسن خاور ، کے پی کے بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے سی ای او حسن داؤد بٹ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم شامل تھے۔ اس ویبینار کی نظامت کے فرائض پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے ادا کیے جبکہ اس میں ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی نمائندگی بھی شامل تھی۔
اس ویبینار میں امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی رپورٹ پر تبادلہ خیال کیا گیا جو 24 اگست کو صدر بائیڈن کو پیش کی گئی اور یہ کورونا وائرس وباکی ابتداکے حوالے سے “غیر حتمی” ہے اور یہ ڈبلیو ایچ او اور چین کے ماہرین کی مشترکہ رپورٹ کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے جس میں ایک درجن سے زائد ممالک کےتقریباَ 20 ماہرین شامل تھے۔ جس میں انہوں نے کہا ہےکہ یہ خارج از امکان نہیں کہ کورونا وائرس ایک لیب سے لیک ہو ا ہو۔
اس ویبینار میں پی سی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ وبائی مرض کو ہتھیار بنا کرسیاست کرنے کی رِیت وبا کے خلاف جنگ میں کثیرالجہتی کی جگہ لے رہی ہے جبکہ وبائی مرض کی مدد سےسیاست کرنا پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو مؤثر طریقے سے وبا سے نمٹنے میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے ۔ انہوں نے شرکاء کو یہ بھی بتایا کہ “اگر چین تقریبا َ3.5 ملین ویکسین خوراکوں کا عطیہ فراہم نہ کرتا تو ہم پاکستانیوں کی بہت سی زندگیاں بچانے کے قابل نہ ہوتے”۔اس موقع پر اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب ایمبیسڈر منیر اکرم نے وائرس کی ابتدا کا سراغ لگانے کی سیاست کو ایک ‘افسوسناک اقدام’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے متعلق تمام کوششوں کو ‘سازشی نظریات اور مذہوم مہمات’ کی نظر کیا گیا ہے اورڈبلیو ایچ او کو سیاسی چال بازی کے ہتھیارکے طور پر استعمال کرتے ہوئے غلط مثال قائم کی گئی ہے۔ مزید برآں ،وائرس کی ابتداکا سراغ لگانے کے لیے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ چین کے قریبی تعاون کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ غلط معلومات کو رد کرنا وبا سے باہر نکلنے کا واحد راستہ ہے ، “اس کی ابتدا کا سراغ لگانا سائنس کی مدد سے ہی ممکن ہے اور سائنس پر بھروسہ کرکےتعصب اور سیاست سے دور رہنے کی ضرورت ہے”
اس ویبینار میں پبلک پالیسی کے ماہر حسن خاور نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح کورونا وائرس وبائی مرض نے اب تک 4 ملین سے زائد افراد کو اپنا نشانہ بنایا ہے اور پوری دنیا میں تباہی مچا ئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران وائرس کی ابتداکو تلاش کرنے کی کوششوں کے باوجود کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں ہے جو چین کو وائرس پھیلانے کا موجب ٹھہرائے۔ اس نے مستقبل کی راہ کا تعین کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام ممالک کو تحقیق کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے اور تب ہی ہم وائرس کی ابتدا کے حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
کووڈ-19 کی وبا کے پھیلاؤ کی ابتدائی صورتحال میں چین میں خدمات سر انجام دینے والی پاکستان کی سابق سفیر نغمانہ ہاشمی نے کووڈ- 19 کو ‘سیاسی طور پر چارج شدہ وائرس’ قرار دیا جس نے عالمی مقابلے کو بڑھایا اور بین الاقوامی نظام میں دو بلاک بنائے۔ ایک جو کہ یہ الزام لگاتا ہے کہ یہ وائرس ووہان کی ایک لیب میں تیار کیا گیا جبکہ دوسرا یہ سمجھتا ہے کہ یہ میری لینڈ امریکہ کی ایک لیب میں تیار کیا گیا ۔ ایمبیسڈر نغمانہ ہاشمی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح وائرس نے سرمایہ داری بمقابلہ سوشلزم پر چینی خصوصیات کے ساتھ بین الاقوامی بحث شروع کی تاکہ دیکھا جا سکےکہ کون سا نظام غالب ہوگا۔ مثالوں کی مدد سے واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین نے اپنی معیشت کو رواں دواں رکھتے ہوئے اور پاکستان جیسے دوسرے ممالک کی مدد کرتے ہوئے مطلوبہ خدمات اور طبی سازوسامان فراہم کیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تیسری دنیا کے ممالک ’وائرس کی سیاست کے حقیقی طور پرشکار‘ ہیں اور اس سیاست نے ویکسینیشن کے لیے عالمی نظام بنانے میں بہت قیمتی وقت ضائع کیا ہے۔
پی سی آئی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین نے امریکہ کی 17 انٹیلی جنس ایجنسیوں کی 24 اگست کی رپورٹ کا حوالہ دیا جو کورونا وائرس کی ابتدا کا سراغ لگانے میں ناکام رہی۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے مزید کہا کہ چین کے حوالے سے سیاسی مہم کے ذریعے بدظن کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح صدر ٹرمپ نے ’چائنا وائرس‘ کی اصطلاح استعمال کی جو نسلی امتیاز،اسلاموفوبیا اور اینٹی سیمٹ ازم جیسی نظریات سےملتا جلتا ہے۔ اس نے امریکہ میں سرد جنگ کی موجودہ ذہنیت پر روشنی ڈالی جس نے وائرس کو ایشیاء سے جوڑا ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ اس سے ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں 169 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ ہمیں “عالمی عوامی فلاح وبہبود” کے طور پر ویکسین کی منصفانہ تقسیم کے لیے چین کا نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے اور ویکسین قوم پرستی کو روکنا ہے۔ انہوں نے “سرحدوں سے ماورا ویکسین” کی فراہمی کے اقدام پر ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس میں صحت ، آبادی کی منصوبہ بندی ، موسمیاتی تبدیلی ، فوڈ سیکیورٹی اور واٹر سیکیورٹی پر توجہ دی گئی ہے۔
یہ ویبینار پاکستان میں اس موضوع پر اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام تھا جو 2 گھنٹے پر محیط رہا جس میں سوال و جواب کے سیشن کے لیے 45 منٹ مختص کیے گئے تھے۔
پاکستان اور چین سی پیک کے دوسرے مرحلے کی سمت متعین کرنے پر متفق۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال سے پاکستان میں چین ک…