پاک چین تعلقات کے 70سال: کانفرنس میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کا خطاب ، سی پیک کا دوسرا مرحلہ صنعتی اور زرعی ترقی کے لئے نیک شگون ثابت ہوگا ۔
۔
اسلام آباد ، 7 جولائی ، 2021: پاک چین تعلقات کی 70ویں سالگرہ کی مناسبت سے پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) کے زیر اہتمام “پاک چین سفارتی تعلقات کے 70سال: منفرد دوطرفہ شراکت داری” کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں چین اور پاکستان کے اہم سرکاری عہدیداروں ، ماہرین تعلیم ، صحافیوں ، طلباء اور سول سوسائٹی کے ممبران نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پاکستان اور چین سے تعلق رکھنے والے 24 مقررین کےپینل نے یک زبان ہوکر پاک چین سدا بہار تزویراتی شراکت داری کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
اس کانفرنس کو افتتاحی سیشن کے علاوہ چار سیشنوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔”پاک چین سفارتی تعلقات کے 70سال: منفرد دوطرفہ شراکت داری” کے عنوان سے منعقدہ اس کانفرنس کے آغاز میں پی سی آئی کی جانب سے تیار کردہ 10 منٹ کی ایک خصوصی دستاویزی ڈاکومینٹری پیش کی گئی جبکہ پاکستان اور چین کے قومی ترانوں کے ساتھ تقریب کا باقائدہ آغاز کیا گیا۔
اس کانفرنس کےافتتاحی سیشن میں پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے برادرانہ تعلقات کے حامل دونوں ملکوں کے عوام کو دلی مبارکباد پیش کی جو ہمیشہ سے بہترین ہمسایہ تعلقات کے ثمرات سے بہرہ ور ہوئےہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین نے 800 ملین لوگوں کو غربت سے نکال کر دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کی تقدیر بدل کر رکھ دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی آر آئی نے مختلف براعظموں کے 140 ممالک کو باہم روابط ، بندرگاہوں ، پائپ لائنوں ، معیشت اور توانائی کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان خوش قسمت ہے کہ وہ بی آر آئی اور اس کے پائلٹ اور فلیگ شپ منصوبہ سی پیک کا حصہ ہے جوکوریڈورز ، ثقافت اور روابط کو فروغ دینے کے لئے اس عالمی اقدام کا مرکز ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے مزید کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات منفرد اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ نہ یہ سودے بازی کی حکمت عملی پر مبنی ہے اور نہ اس کےکسی تیسرے ملک کے خلاف مذہوم عزائم شامل ہیں۔
اس کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور عوامی جمہوریہ چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ برائے وانگ یی نے اہم تقاریر کیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاک چین دوستی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون کی مضبوط رِیت قائم ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے مابین خاص طور پر کورونا وائرس کی وباکے دوران دو طرفہ تعاون کو خوش آئند قرار دیا کیونکہ چین نے اب تک پاکستان کو ویکسین کی ساڑھے تین لاکھ خوراکیں عطیہ کی ہیں جبکہ پاکستان نے بھی ہمیشہ سےچینی بنیادی مفادات کی مکمل حمایت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھی ویکسین کو عالمی سطح پر عام کرنے کے بارے میں چینی موقف کے ساتھ کھڑا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ پاکستان اور چین کا مشترکہ مستقبل بنیادی ڈھانچے ، نالج اور عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی ہے ۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی تعاون کے بارے میں بھی بات کی جس میں ثقافتی تعاون کے سلسلے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔مزید برآں،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستانی عوام امن و استحکام کے خواہاں ہے جبکہ چین پاکستان کو ایک خوشحال ملک بنانے کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کر رہا ہے ۔ انہوں نے دونوں ممالک میں پاک چین تعلقات کی 70 ویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ متعدد تقریبات کا تذکرہ کیا اور خصوصی ماہرین کے پینل کے ساتھ اس تقریب کے اہتمام پرپر پی سی آئی کا شکریہ ادا کیا۔
اس کانفرنس میں چینی وزیر خارجہ اور ریاستی کونسلر وانگ یی نے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ چین اور پاکستان سد بہار دوست ہیں جو سماجی اور ثقافتی فرق کے باوجود ایک دوسرے کو سمجھنے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کثیر الجہتی پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سرد جنگ کی ذہنیت سے پیدا ہونے والی صورتحال کو مسترد کر دینا چاہئے اور تمام ممالک کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ پاکستان اور چین کو آگے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی امن کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھانا چاہئے اور دیگر ممالک کو بھی علاقائی سلامتی کے خطرات سے مل کر نمٹنے کی ترغیب دینی چاہئے۔چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے پاکستان سے مضبوط وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا میں کیسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں لیکن چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ انہوں نے پاک چین دوستی کو فروغ دینے پر سینیٹر مشاہد حسین کا بھی شکریہ ادا کیا۔
اس کانفرنس کےافتتاحی سیشن کے بعد ” اے ماڈل سٹیٹ ٹو سٹیٹ پارٹنر شپ – ہسٹوریکل کنٹیکسٹ” کے عنوان سے پہلا اجلاس منعقد ہوا۔چین کے سفیر شا زوکانگ نے پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ چین اور پاکستان کو سی پیک کے تحت تعمیر و ترقی پر توجہ دینی چاہئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک بی آر آئی کا ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے جو دونوں ممالک میں نیا تجربات اور مہارتیں پیدا کررہا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے اس سیشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ 1965 کی جنگ کے بعد چین نے پاکستان کو فوجی امداد دی۔ گزشتہ ادوار کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک رواں سال اپنے دو طرفہ تعلقات کی 70 ویں سالگرہ بھرپور طریقے سے منا رہے ہیں جبکہ ان کا مشترکہ مستقبل روشن ہے ۔
اس موقع پرپلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین جناب محمد جہانزیب خان نے کہا کہ چین ایک عظیم دوست ملک ہے جس نے پاکستان کو ترقی کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ثقافتی طور پر متنوع دو ممالک ان قریبی تعلقات کے سلسلے کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔
اس کانفرنس کےدوسرے اجلاس کا عنوان “پیوپل ٹو پیوپل کنیکٹویٹی۔دی فاؤنڈیشن آف پاکستان چائینہ فرینڈشپ” تھا۔ جس کی نظامت کے فرائض ایشین انسٹیٹیوٹ آف ایکو سیولائزیشن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مشیر شکیل رامے نے اداکیے ۔ پی سی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے پاکستان چین تعلقات میں عوامی رابط کو نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا۔ انہوں نے نوجوانوں کے تبادلے کو یقینی بنانے ، باہمی تبادلہ خیال اور دونوں ممالک کے مشترکہ متحرک تعلقات کے آغاز میں پی سی آئی کے کردار پر روشنی ڈالی۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ تھنک ٹینک کی حیثیت سے پی سی آئی نے نوجوانوں پر خاص توجہ دے کر چین سے منسلک کیا ہے جبکہ پاکستان چین تعلقات کونئی بلندیوں تک لے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ شینگوا یونیورسٹی چین کے پاکستان اسٹڈیز سنٹر کے چیئرمین پروفیسر لی زیگوانگ اس دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین کے مابین دوستی کی ابتدا صدیوں پہلے شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے پاکستان میں بدھ مت کے آثار پر روشنی ڈالی اور پاکستان کو اس مذہب کی تاریخ کے حوالے سے ایک اہم ملک کا نام دیا جس کی چینی عوام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس موقع پر ہنر کڑا کالج آف ویجول اینڈ پرفارمنگ آرٹس کے چیئرمین جمال شاہ نے چینی ثقافتی ورثہ کو چینی عوام کے لئے تبدیلی کا حامل قرار دیا۔ مزید ی برآں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین کے پالیسی سازوں سے ملک کے ثقافتی ورثے میں سرمایہ کاری کے لئے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس دوران چائینہ پاور حب جنریشن کمپنی (پرائیوٹ) لمیٹڈ کی نائب صدر لیگل و کارپوریٹ افیئرز امبرین شاہ نے کہا کہ ان کے تجربے کے مطابق چینی عوام بہت ہی مثبت ، ترقی پسند اور عوام دوست عادات و اطوار کے حامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی دوسروں کی رائے اور ان پٹ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے کام کی اہم اخلاقیات کے طور پر عزت اور وفاداری کو برقرار رکھتے ہوئے صنفی امتیاز کا برتاؤ نہیں کرتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین میں خواتین کمپنیوں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں کیونکہ چینی سخت محنت میں عظمت پر یقین رکھتے ہیں۔
اس کانفرنس کا تیسرا سیشن ” پاکستان چائینہ شیئرڈ انٹریسٹس ان دی چینجنگ ریجنل سنیاریو” کے عنوان کے تحت منعقد ہوا جس کی نظامت کے فرائض چین میں خدمات سر انجام دینےوالے سابق پاکستانی سفیر خالد مسعود نے انجام دیے۔جس میں انہوں نے وبائی صورتحال کے بعد بدلتے عالمی اور علاقائی منظرنامہ کو سمجھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی کیونکہ عالمی اتحاد کو دوبارہ سے نئی شکل دی جارہی ہے۔ اس کے بعد سائنس وٹیکنالوجی پر وزیر اعظم ٹاسک فورس کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن نے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ پاکستان اور چین کووڈ-19 ریسرچ کے لئے تعاون کر رہے ہیں اور تعلیمی تبادلے کے لئے بھی مل کرکام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک طب کے شعبے میں کام کے سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ان کے بعد پروفیسر وانگ وین ، ایگزیکٹو ڈین ، چونگ یانگ انسٹیٹیوٹ ، رینمین یونیورسٹی نے شرکاء سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین کی ترقی کا عمل پاکستان چین تعلقات کا نتیجہ ہے۔ چائینیز گورنمنٹ ایسوسی ایشن آف فرینڈشپ وِد فارن کنٹریز کے وائس چیئر مین آئی پنگ نے کہا کہ چین اور پاکستان کے عوام کے مابین قریبی دوستی قائم ہے کیونکہ دونوں ممالک دو طرفہ تعلقات کی 70 ویں سالگرہ کو بھرپور طریقے سے منا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے اور اس راہداری سے پاکستانی عوام کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور توانائی کی ضروریات پورا کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک تقریبا 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے 46 منصوبے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ مزید منصوبوں پر کام کا سلسلہ جاری ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) یاسین ملک نے اس موقع پر کہا کہ چین خطے کا واحد ملک ہے جس نے تاریخی اعتبار سے افغانستان میں کبھی جارحیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ایک بار افغانستان میں معاملات مستحکم ہو جاتے ہیں تو چین کےافغانستان کے تعلقات مضبوط ہونے کے قوی امکانات موجودہیں ۔ وائس چیئر مین نیشنل پیپلز کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی ، آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی کی سابق وزیر ڈاکٹر ژاؤ بائیج نے اس موقع پر کہا کہ بی آر آئی تمام انسانیت کے بہتر مستقبل کا ضامن ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان اور چین دونوں ممالک کے مشترکہ مستقبل کی تعمیر کی راہ ہموار کرے گا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان چین دوستی ہمیشہ اس قدر مستحکم رہی ہے کہ کوئی بین الاقوامی مسئلہ یا صورتحال اس میں تبدیلی نہیں لاسکا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور چین کو توانائی کے منصوبوں ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدت طرازی کی ترقی کے لئے کام کرنے اور نئی کارپوریٹ ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے فعال طور پر کوششوں میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
“سی پیک :دی وے فورورڈ” کے عنوان سےمنعقدہ چوتھے سیشن میں مصطفیٰ حیدر سید ،محمد اورنگزیب صدر اور سی ای او حبیب بینک لمیٹڈ ، عبدالرزاق داؤد مشیر وزیراعظم برائے تجارت و ٹیکسٹائل اور صنعت نے تبادلہ خیال کیا۔ جبکہ آل پاکستان چائنیز انٹرپرینرزایسوسی ایشن کے چیئرمین اور یانگ جیانڈو نے پاکستان اور چین کو بزنس ٹو بزنس تعاون کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا اور اور دونوں ممالک کے مابین بہتر ین روابط استوار کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
اس موقع پر صدر اور سی ای او حبیب بینک لمیٹڈ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حبیب بینک لمیٹڈ کی دو شاخیں چین میں ہیں جن میں 15000 چینی اکاؤنٹس موجودہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایچ بی ایل چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سی پیک کی کامیابی کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں۔”
اس سیشن کے اختتام پرمشیر وزیراعظم برائے تجارت، ٹیکسٹائل ، صنعت و پیداوار اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ 8 نئے اعزازی سرمایہ کاری کے کونسلر نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور وہ پاکستان تجارتی تعلقات کو بہتر انداز میں مزید مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے سی پیک کے تحت علاقائی ترقی کو فروغ دینے کے لئے موجودہ حکومت کی ترجیحات پر روشنی ڈالی۔ اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران چین کو پاکستان کی برآمدات میں 30 فیصد اضافے سے 2.3 ارب سالانہ تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان کو چینی ورک ویزوں میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ کانفرنس7 گھنٹے تک جاری رہی اور اس میں 200 سے زائد افراد نے شرکت کی جس میں معروف پاکستانی اور چینی میڈیا ، تھنک ٹینکس ، حکومتیں اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں شاملی تھیں۔ اس کانفرنس میں معروف پاکستانی جامعات کے طلباء اور فیکلٹی ممبران بھی شریک ہوئے۔