سینیٹر مشاہد حسین سید نے گلاسکو میں منعقدہ سی او پی 26 کانفرنس میں خطاب کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں سےجنگ میں پاکستان کے کردار پر روشنی ڈالی۔
.
گلاسگو میں منعقدہ سی او پی 26 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےسینیٹ کی دفاعی کمیٹی اور سینیٹ کی موسمیاتی تبدیلی کمیٹی کے رکن سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے جس میں سیلاب، جنگلات میں آگ اور برفانی تودے گرنے جیسے سنگین موسمی واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہوں نے اس حقیقت کا ذکر کیا کہ 10 سال قبل سندھ اور کے پی میں سیلاب کی وجہ سے پاکستان کا 20 فیصد حصہ زیر آب آیا تھا اور 2012 میں گیاری میں سطح سمندر سے 12,000 فٹ بلند سیاچن گلیشیئر پربرفانی تودہ گرنے کے سبب 150 فوجی اور شہری شہید ہوئے۔انہوں نے مزید نے کہا کہ دفاعی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سےانہوں نے قومی سلامتی کے تصور کی ازسرنو ایک نئی تصویر پیش کرنے کے لیے کام کیا جو روایتی طور پر صرف فوجی طاقت پر مبنی تھا اور جس کی اب نئی تعریف وضع کی گئی ہے تاکہ انسانی سلامتی، لوگوں کی زندگیوں اور معاش کے تحفظ پر توجہ مرکوز کی جا سکے جبکہ صحت، وبائی امراض، آبادی کی منصوبہ بندی، تعلیم اور موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات پر خاص توجہ مرکوز ہے۔ گلاسگو میں سی او پی 26 میں اپنی تقریر کے دوران سینیٹر مشاہد حسین نے تجویز پیش کی کہ رابطے کے لیے تمام عالمی پہل کاریاں جیسا کہ چین کا بی آر آئی، امریکہ کا بی 3ڈبلیو اور یورپی یونین کا گلوبل گیٹ وے شامل ہیں پاکستان جیسے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ کمزورممالک کے لیے موسمیاتی تخفیف کے منصوبوں کے لیے خصوصی فنڈ مختص کریں جو کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں مدد فراہم کرے گا اور یہ انسانیت کو درپیش سب سے بڑے سلامتی کے خطرات میں سے ایک ہے۔ نیز اس مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کے لیے متعصبانہ سیاست سے بالاتر ہو کر اجتماعی ردعمل اپنانےکی ضرورت ہے۔