چین اور پاکستان کومرکزی ومقامی حکومتوں کی سطح پر باہمی تعلقات کو مزیدمستحکم کرنے کی ضرورت
.
عہدِ حاضر میں چائینہ-پاکستان اقتصادی راہداری کے سفر میں تین رکاوٹیں حائل ہیں جن میں موجودہ بڑھتے ہوئے مالی دباؤ کی وجہ سے آئی ایم ایف کی سخت ہدایات اورموجودہ حکومت کی جانب سے سماجی و اقتصادی ترقی ، زرعی اور صنعتی پارکس پر زور دینے کے لئے سی پیک پراجیکٹس کے لئے اصل ماسٹر پلان میں ردوبدل (جس کے لئے بہت کام کرنا باقی ہے) اور کئی بین الاقوامی سیاسی عوامل شامل ہیں۔ پاکستان تجارتی جنگ کی وجہ سے سی پیک کے فریم ورک میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو شامل کرنے کا خواہاں ہے۔ بنیادی طور پرپاکستان ہی سی پیک اور بی آرآئی کو دوبارہ صحیح سمت پر گامزن کر سکتا ہے۔جس میں پہلے ملکی سیاست میں اس منصوبے کو اپنے ایجنڈے کی حمایت حاصل کرنے کی سعی کر سکتاہے۔ دوئم کواپریٹو بیوروکریسی اور عوام میں اس میگا پراجیکٹ کامثبت تاثر بھی اس منصوبے کو آسانی سے آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔تیسرا ، جغرافیائی سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ صرف اراضی کی فراہمی چینی سرمایہ کاری کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ صنعتی پارکس کی منصوبہ بندی ، پانی ، بجلی ، گیس ، سڑک ، دوستانہ پالیسیاں ، اصلاحات اور قواعدوضوابط جیسی معاون سہولیات اور انفراسٹرکچر کی بہتری پر بھی خاص توجہ دینی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان کو ترقی اورطرزِ حکمرانی کے بارے میں اپنے تجربات کے تبادلے کو بڑھانا چاہئے اور مرکزی اور مقامی حکومتوں کی سطح سے لے کردو طرفہ فوجی تعلقات تک کو مضبوطی سے استوار کرنے کی ضرورت ہے۔