بی آر آئی کانفرنس میں سی پیک کے تحت تعمیر وترقی کا سفر خوش آئیند قرار، علاقائی رابطہ سازی کے لئے کوششوں پر زور، ”نئی سرد جنگ” کا تصور مسترد، فوڈ اینڈ میڈیسن سیکیورٹی کو یقینی بنانے کامطالبہ۔
.
اسلام آباد۔(8جولائی ، 2020) – پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو( بی آر آئی) پر پہلی غیر سرکاری آن لائن کانفرنس کا انعقاد کیا۔جس میں اس کے فلیگ شپ پراجیکٹ سی پیک پر خاص طور پر روشنی ڈالی گئی۔اس کانفرنس میں 8 ممالک کے شرکاءنے شرکت کی۔ 2 گھنٹے 45 منٹ تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں پاکستان ، چین ، نیپال ، افغانستان ، بنگلہ دیش ، قازقستان ، میانمار اور سری لنکا کے شرکاء شریک تھے۔ اس موقع پربی آر آئی سے متعلق مختلف نکتہ جات پر طویل بحث ہوئی۔ جس کے بعد سوال و جواب کا 35 منٹ کا سیشن ہوا۔
:اس کانفرنس میں بی آر آئی کے حوالے سے پانچ کلیدی اتفاق رائے کے شعبے سامنے آئے
کورونا وائرس کے بحران میں مشترکہ آزمائشوں سے نمٹنے کے لئے موثر تعاون کے لئے عالمی باہمی انحصاریت کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
بی آر آئی مساوات ، باہمی مفادات اور باہمی فوائد کے حصول کے اصولوں پر مبنی علاقائی رابطہ سازی کو فروغ دیتا ہے جبکہ سی پیک کو “بی آر آئی کی کامیابی کے نشاں” کے طور پر سراہا گیا۔
شرکاء نےپاکستان اور سری لنکا کے حوالے سے نام نہاد “قرضوں کے جال” کے بیانیے سےمتعلق پروپیگنڈے کوسختی سے مسترد کیا چونکہ مجموعی طور پر چین کو واجب الادا قرضےدوسرے ممالک یا ملٹی لیٹرل اداروں کے قرضوں کی نسبت نہایت ہی کم ہیں۔
کووڈ-19 کو “نئی سرد جنگ” یا کسی ملک کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بی آر آئی کو ہدف بنا کر بدنام کرنے کی روش کو سختی سے مسترد کیاگیا۔
ہندوستان کےعزائم سے نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک خوب آشنا ہیں کیونکہ یہ قریبی ہمسایہ ہیں لیکن یہ دونوں ممالک چین اور ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں جبکہ واضح رہے کہ بی آر آئی نہ تو ایک فوجی اتحاد ہے اور نہ ہی یہ بھارت اور نہ ہی کسی مغربی ملک کے خلاف ہے۔.
پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے ابتدائی کلمات میں بی آر آئی کو اکیسویں صدی کا سب سے بڑا اوراہم سفارتی اور ترقیاتی اقدام قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی آرآئی کا فلیگ شپ پراجیکٹ سی پیک پہلے ہی کامیابی کا نشاں ثابت ہوا ہے اور کامیابی کے ساتھ دوسرے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شیڈول کے مطابق مکمل ہوچکے ہیں۔ 75000 پاکستانیوں کو بی آر آئی منصوبوں میں روزگار کے مواقع ملے ہیں اور چین میں 28000 پاکستانی طلبا زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نےکووڈ-19بحران کے دوران پاکستان کی حمایت کرنے پر چین کا شکریہ بھی ادا کیا اور انہوں نے 12 فروری اور 14 مئی کو سینیٹ آف پاکستان کے ذریعہ منظور کی جانے والی دو قراردادوں کا ذکر کیا۔ جس میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے چین کے کردار اور حمایت کو شاندار الفاظ میں سراہا ہے۔
پاکستان اور چین میں خدمات سر انجام دینے والے افغانستان کے سابق سفیر جانان موسی زئی نے بی آر آئی میں افغانستان کے کردار کے لئے ایک مخصوص پانچ نکاتی منصوبہ پیش کیا جس میں انہوں نے سی پیک کا بھی حوالہ دیا چونکہ افغانستان رابطہ سازی کے لئے ایک پل کا کردار ادا کرسکتا ہے اور افغانستان بی آر ممالک کو چینی مارکیٹ تک رسائی فراہم کرنے میں اہم سہولت فراہم کرسکتا ہے۔انہوں نے لئے بنگلہ دیش ، قازقستان اور میانمار کے بی آر آئی ممالک کے طور پر تعمیر و ترقی کی شروعات کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک اور چین کے مابین اعلی سطحی تبادلوں کے ساتھ ساتھ مختلف منصوبے شروع کیے جارہے ہیں۔اس آن لائن کانفرنس میں نیپال کے میڈیا لیڈرشوبھا شنکر قندیل نے بتایا کہ کس طرح بی آر آئی کے ذریعے سے لینڈ لوکڈ ممالک لینڈ لنک ممالک بن سکتے ہیں جبکہ اس موقع پر سری لنکا کے ایڈمرل پروفیسر جیاناتھ کولمبیج نے بی آر آئی کے کردار کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دونوں ممالک بی آر آئی کا حصہ ہوتے ہوئے بیک وقت ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔ سری لنکا کےخارجہ تعلقات سے متعلق صدر کے ایڈیشنل سکرییٹری پروفیسر جیاناتھ نے حقائق اور اعدادوشمار کا حوالہ دے کر سری لنکا کے بارے میں “ڈیبٹ ٹریپ” کے نظریہ کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ سری لنکا کے 57 ارب امریکی ڈالر کے قرضہ جات میں چین کو واجب الادا قرضہ صرف 8.5 بلین ڈالر تھے۔مزید برآں انہوں نے یہ بھی انتباہ کیا کہ بحر ہند میں لگ بھگ 120 جنگی جہازوں کے ساتھ یہ ‘دنیا کا سب سے زیادہ عسکری نوعیت کا سمندر’ بنتا جا رہا ہے۔ انہوں نے مختلف ممالک کو فوڈ اینڈ میڈیسن سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اس موقع پرچین کے سابق نائب وزیر آیی پنگ نے پیوپل ٹو پیوپل کنیکٹویٹی کے حوالے سے بات کی اورکہا کہ کووڈ-19 بحران کے دوران چینی 60 این جی اوز نے 40 آن لائن پروگراموں کا اہتمام کیا جس کا مقصد باہمی تعاون پر مبنی معلومات اور تجربات کا اشتراک کرنا ہے۔
مزید برآں اس آن لائن کانفرنس میں پروفیسر ہوانگ یو اور مسٹر کلیان راج شرما نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی قوم، ثقافت یا ملک کو بدنام کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا جانا چاہئے اور اس میں دو رائے نہیں کہ بی آر آئی کا مقصد ترقی و خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔
اس آن کانفرنس میں میر مجلس کے فرائض پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرمصطفی حیدرسید نے سر انجام دیے جبکہ سوال و جواب کا سیشن کا انتظام لمس کے ڈائریکٹر چائینہ سنٹر فار لیگل اسٹڈیز پروفیسر سکندر شاہ نے سنبھالا۔