پی سی آئی اور ایس ڈی پی آئی نے سی پیک کو سبز اور ماحول دوست بنانے کے لیے ‘گرین سی پیک الائنس’ کا آغاز کر دیا
.
اسلام آباد (1 جون، 2022): پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے تعاون سے اپنی نوعیت کی پہلی”گرین چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) الائنس” کی لانچنگ تقریب اور انسپشن میٹنگ کی میزبانی کی۔ اس کانفرنس میں 40 سے زائد شرکاء نے شرکت کی اور اس میں 6 مقررین شامل تھے جن میں سینیٹ کی دفاعی کمیٹی اورپاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید، عوامی جمہوریہ چین کی قائم مقام سفیر محترمہ پانگ چنکسو، چائنہ تھری گورجز کارپوریشن کے سی ای او ژانگ جون، حبیب بینک لمیٹڈ (ایچ بی ایل) کے سی ای او محمد اورنگزیب، سینیٹ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن سیمی ایزدی اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ ( ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری شامل تھے ۔اس تقریب کی نظامت کے فرائض پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے ادا کیے۔
گرین سی پیک الائنس کے آغاز کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کی حکومتوں، سرمایہ کاروں اور ماہرین ماحولیات کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کی اس میں شرکت کو یقینی بنا کر پاکستان اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو میں سبز سرمایہ کاری کو مزید فروغ دینا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الائنس کے دیگر مقاصد میں چینی بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کو ایک نئی جہت سے روشناس کرکے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں جیسا کہ کوئلہ کے منصوبوں کو قابل تجدید توانائی ( ہوا، شمسی اور پن بجلی) کی طرف ترغیب دے کر سی پیک کو سبز اور ماحول دوست بنانا ہے۔
پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے استقبالیہ کلمات میں اس الائنس کا حصہ بننے پر بے حد مسرت کا اظہار کیا اور تمام معزز مہمانوں کی شرکت کا خیر مقدم کیا۔ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے بڑھتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک سرسبز پاکستان کی ضرورت کو ترجیح دینے پر زور دیتے ہوئے دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کی صورت حال کے پیش نظر اس طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہاکہ ہندوستان اور پاکستان کو سیاچن گلیشیئر سے فوجیوں کو واپس بلانے پر خاص طور پر غور کرنا چاہیے کیونکہ خطے میں فوجیوں کی سرگرمیاں مقامی ماحولیاتی نظام کو متاثر کر رہی ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سیدنے گلاسگو میں ہونے والے سی او پی 26 کے اجلاس سے اپنے تجربات بھی آگا ہ کیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ بین الاقوامی سطح پر کچھ کام ہو رہاہے تاہم انہوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان میں کمیونٹی کی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے درکار کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید کے بعد پاکستان میں عوامی جمہوریہ چین کی قائم مقام سفیر محترمہ پانگ چنکسو نے تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے تقریب کا حصہ بننے پر مسرت کا اظہار کیا اورعالمی سطح پر منڈلاتےموسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو کم کرنے کے لیے چین کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بین الاقوامی گرین ڈیولپمنٹ کولیشن جیسے چینی اقدامات پر زور دیا جن کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تمام چینی سرمایہ کاری جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ ہیں کو سبز بنایا جائے۔ انہوں نے مختلف ہائیڈرو پاور اور سولر پاور پلانٹس کے بارے میں بتایا جو کوئلے سے بجلی کے منصوبوں کے متبادل کے طور پر تعمیر کیے گئے ہیں اور اس وقت پاکستان کے عوام کو توانائی کی ضروریات کو پورا کر نے کے لئے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ آخر میں انہوں نے چین کی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا جس سے بی آر آئی اور سی پیک کو سر سبز اور ملک کو پائیدار بنانے میں مدد ملے گی۔
اہم مقررین اور مہمان خصوصی کے علاوہ پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے بھی کانفرنس میں موجود معززین کو گرین سی پیک الائنس کے اغراض ومقاصد سے آگاہ کیا۔ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کی حنا اسلم بھی ان کے ساتھ موجود تھیں۔ ای ڈی مصطفیٰ حیدرسید نے نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اتحاد اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کو متحد کر رہا ہے جو سی پیک کو سبز اور پائیدار بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اس بات کو یقینی بنانے پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ دونوں حکومتوں کی جانب سے عالمی فورمز جیسے سی او پی 26 اور سی او پی 23 پر کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ یہ اتحاد پالیسی بریفس، رپورٹس اور کانفرنسوں کی شکل میں تحقیق تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا جو پالیسی سازوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو سبز اختیارات کا انتخاب کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔
چائنا تھری گورجز (سی ٹی جی) کارپوریشن کے سی ای او ژانگ جون نے اس موقع پر کہا کہ سی ٹی جی اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے جو ‘صاف توانائی فراہم کرنا اور متحد ہو کر خوشحال کمیونٹیز کی تعمیر’ پر مشتمل ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سی ٹی جی بی آر آئی پلان کے ایک حصے کے طور پر اپنے توانائی کے نئے کاروبار کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے پرعزم ہےاور اس میں چار بین الاقوامی کاروباری لائنیں قائم کی ہیں جن میں سرمایہ کاری، تعمیر، آپریشن اور مشاورت شامل ہیں۔ بی آر آئی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت تعمیر و ترقی کے سفر میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہےجو کہ علاقائی روابط اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے چینی اور پاکستانی حکومتوں کے درمیان دو طرفہ معاہدہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سی پیک کا معاہدہ چین اور پاکستان دونوں کے لوگوں کو بہت زیادہ سماجی و اقتصادی فوائد فراہم کرے گااور مستقبل میں سی پیک معاہدے کے تحت مزید صاف سبز منصوبوں میں حصہ ڈال سکیں گے جو مزید سماجی و اقتصادی سہولیات اور معاشی فوائد فراہم کریں گے۔
حبیب بینک لمیٹڈ کے سی ای او محمد اورنگزیب نے پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شروع کیے گئے اقدام کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ایچ بی ایل کا سی پیک پراجیکٹس کے ساتھ ان کی فنانسنگ اورا سٹرکچرنگ میں خاص کردار ہے۔ سی پیک فیز 2 پر تبصرہ کرتے ہوئےانہوں نے کہاکہ دوسرا مرحلہ منصوبے کے پہلے مرحلے کی منیٹائزیشن سے متعلق ہے جس سے ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری آئی ہے اور پاکستان میں توانائی کا بحران کم ہوا ہے۔ انہوں نے اس امید بھی ظاہر کی کہ سی پیک کے تحت تیار کیے جانے والے خصوصی اقتصادی زونز راشکئی کی طرح ملک میں صنعت کاری کو فروغ دیں گے۔ اس حوالے سے موقع کو بروئے کار لاتے ہوئے ایچ بی ایل نےراشکئی میں پہلے ہی ایک برانچ کا آغاز کیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات قابل غور ہے کہ ایچ بی ایل بیلٹ اینڈ روڈ میں سرمایہ کاری کو سبز بنانے کے لیے سبز سرمایہ کاری کے اصولوں پر معاہدے کرنے والا ہے۔ ان میں تین سطحوں پر سات اصول شامل ہیں، یعنی حکمت عملی، آپریشنز اور جدت۔مزید برآں،انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں چین کے تجربات سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج جاری ہونے والے 40 فیصد گرین بانڈز چین سے آرہے ہیں۔اس کے علاوہ ایچ بی ایل پہلا پاکستانی بنک ہے جس کے بیجنگ میں اپنی شاخ کھولی ہے۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری نے سبز سی پیک الائنس کے آغاز کو ایک بروقت اقدام قرار دیا کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر انسانیت کو بقا کے لئے مسائل کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے چین کے کردار کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین کے پاس ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت بڑھانے کے حوالے رہنمائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ دنیا کو اب اندازہ ہو گیا ہے کہ اس خطرے پر توجہ دینا کتنا اہم ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ہفتے گلوبل فوڈ سیکیورٹی سمٹ میں شرکت کی جس میں دو اہم نکتہ جات پر روشنی ڈالی گئی، یعنی روس-یوکرین تنازع کے فوڈ سیکورٹی پر اثرات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے دوران فوڈ سیکیورٹی کو کیسے یقینی بنایا جائے۔
سینیٹ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن سیمی ایزدی نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں میں 0.1 فیصد سے بھی کم حصہ ہے لیکن دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کیونکہ یہ وہ مسئلہ ہے جو پوری انسانیت کو متاثر کرتا ہے مزید برآں، انہوں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے سبز ترقی کو آگے بڑھانے کی چین کے عزم پر اطمینان کا اظہار کیا۔
یہ سیشن 2 گھنٹے تک جاری رہا اور اس میں طلباء، میڈیا، سول سوسائٹی، پالیسی سازوں، پارلیمنٹیرینز اور ماہرین ماحولیات سمیت متنوع شرکاءنے شرکت کی۔