چین کی قرض ریلیف ڈپلومیسی نے مغربی اقتصادی ڈپلومیسی پر واضح برتری حاصل کی، محقق۔
.
ایشیاء سٹیڈی سنٹر،ایس ڈی پی آئی کے ڈائریکٹر شکیل احمد رامے نے کہا ہے کہ ہمیں چین کی بین الاقوامی تعلقات کی پالیسی کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لئے چینی دوراندیش حکمت عملی کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چینی پالیسی مشترکہ مفادات پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط ، ہم آہنگی ، احترام کے اصولوں،اخلاقیات اور بھائی چارگی سے مربوط ہے۔ جبکہ مغربی فلسفہ مفادات کے گرد گھومتا ہے جس کا ثبوت بین الاقوامی اداروں جیسے آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک وغیرہ سے ملتا ہے جو طاقتور مغربی ممالک کے مفادات کی محافظ ہیں۔ ابتدا ہی سے ان اداروں نے متعدد پالیسیوں کے ذریعے لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کو فروغ دیا اور تیسری دنیا کے ممالک ان کے مقروض بنے۔ شکیل رامے مزیدلکھتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں ان اداروں نے ایک پالیسی کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کو ترقی دی اور پھر سٹریکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام متعارف کروائے ان سبھی میں تیسری دنیا کے ممالک کو مقروض بنانے کی عزائم پنہاں تھے۔ تب مغرب نے اقتصادی طاقت کو معاشی ہتھیار بنانے میں اہم کردارکیا اور یوں لوگوں کی خوشحالی فوجی طاقت کے تابع ہوگئی۔ اس کے بعد سفارتکاری کو یہ اختیار سونپا گیا تھا کہ وہ اپنی توجہ کو دوبارہ ایڈجسٹ کرے اور معاشی مفاد کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک اہم کردار ادا کرےجس کے نتیجے میں اقتصادی سفارت کاری کا آغاز ہوا۔ تاہم اس کے بعد چین نے اپنے وِن تعاون کے ساتھ ایک متبادل پیش کیا۔ چین نے ممالک کو قرضوں کے جال سے نکلنے میں مدد کے لئے سرمایہ کاری کی جامع پالیسیاں اور پروگرام شروع کیے جن کو قرض سے نجات کی سفارتکاری کہا جاسکتا ہے۔ یہ کنفیوشس تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ قرض ریلیف ڈپلومیسی کی جڑیں گو گلوبل پالیسی کے آغاز سے لے کر تازہ ترین ملٹی بلین بی آر آئی پراجیکٹ تک واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے بغیر کسی تفریق کے سب کے لئے مشترکہ مستقبل اور خوشحالی والی کمیونٹی کا تصور متعارف کرایا۔ یہ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کے لئے نہایت فائدہ مند ہے اور یہ ایک اچھا اور کامیاب ماڈل ثابت ہوا ہے۔