پاکستان اور چین سی پیک کے تحت زرعی تعاون کے سلسلے کو مزید آگے بڑھائیں گے،پروفیسر مینگ شینگ۔
.
پیکنگ یونیورسٹی چین کے سینٹر فار پاکستان سٹیڈیز سے وابستہ پروفیسر تانگ مینگ شینگ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 18.5 فیصد ہے اور وہ نوکریوں کا 38.5 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ زرعی پیداوار میں سے پودے لگانے کی پیداوار 38.7 فیصد ہے اور گلہ بانی کا حصہ 57.79حصہ ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ زراعت پاکستان کی قومی معیشت کے لئے اہم ہے جو ایک اہم برآمدی صنعت بھی ہے جس سے پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی یہ معیشت کے دوسرے شعبوں کی ترقی کے لئے بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ سی پیک کے فریم ورک کے تحت زرعی تعاون پاکستان کے زرعی ترقیاتی صورتحال کے مطابق ہونا چاہئے کیونکہ دونوں کے درمیان زرعی انفارمیشن ایکسچینج اور ٹریننگ ، زرعی پروسیسنگ ، زرعی مشینری مینوفیکچرنگ اینڈ مینٹیننس ، کیڑے مار دوائیوں کے انتظام وغیرہ میں باہمی تعاون کی طویل تاریخ ہے۔ جبکہ پنجاب اور سندھ کے شمالی حصوں کے ساتھ ساتھ ہم اس خطے میں زراعت کو جدید بنانے اور صنعتی بنانے کے ساتھ ساتھ زرعی مصنوعات کی برآمدات کو بھی فروغ دیں گے۔ پروفیسر مینگ شینگ لکھتے ہیں کہ چینی کاروباری ادارے پاکستانی گلہ بانی اور متعلقہ دیگر پروسیسنگ منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں اور صنعتی سلسلے کو بڑھانے کی کوشش کر سکتے ہیں تاکہ مصنوعات نہ صرف پاکستانی مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کرسکیں بلکہ ایشیاء اور مشرق کے دیگر ممالک کو برآمد بھی کرسکیں۔ مزید برآں انہوں نے روشنی ڈالی کہ چین اور پاکستان دریائے سندھ طاس کے آبپاشی ، نقل و حمل اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر غور کرسکتے ہیں۔جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ مہارتوں اور سکیل منیجمنٹ کے لئے جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جا سکتی ہے جس کا مقصد پنجاب اور سندھ کو گندم ، چاول ، آم ، انار اور دیگر جیسے زرعی مصنوعات کی اہم پروسیسنگ بیس بنانا ہوجس کی مدد سے چین ، یورپ ، مغربی ایشیاء ، جنوب مشرقی ایشیاء اور دیگر ممالک اور خطوں تک برآمدات کا دائرہ کار بڑھایا جا سکے۔