‘چائنا ایٹ 75’ بین الاقوامی کانفرنس: اسحاق ڈار نے چین کے ‘عظیم تحفہ سی پیک’ کو شاندار الفاظ میں سراہا، چینی سفیر جیانگ ژی ڈونگ نے دہشت گردی کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیا، مشاہدحسین سید نے چین کے عروج کو ‘ایشیائی صدی کا آغاز’ قرار دیا۔
(اسلام آباد – 30 اکتوبر) سینیٹر مشاہد حسین سید کے زیر قیادت پاکستان-چائنا انسٹیٹیوٹ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے 75 سال کی مناسبت “چائنا ایٹ 75: ترقی، تبدیلی اور عالمی قیادت کا سفر” کے عنوان سے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔جس میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی ۔ اس کانفرنس کے دیگر مقررین میں پاکستان میں تعینات چینی سفیر جیانگ ژی ڈونگ؛ معروف ماہر اقتصادیات اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر عشرت حسین اور وفاقی وزیر برائے سمندری امور قیصر احمد شیخ شامل تھے۔ اس کانفرنس میں جنوبی ایشیا کی بین الاقوامی نمائندگی بھی شامل تھی جس میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما محبوب عالم، مالدیپ کے رکن پارلیمنٹ احمد طارق اور نیپال کی وفاقی پارلیمنٹ کے رکن اچیوٹ پرساد مینالی شامل تھے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے چین کے چند منفرد پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے چینی قوم کے پُرامن عروج پر روشنی ڈالی جس میں کسی بھی قسم کی جارحیت، قبضہ یا نوآبادیات کے بغیر یہ ممکن بنایا گیا ہے اور اس سے چین کی 5000 سال پرانی تہذیب کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے پاک چین تعلقات کو بے مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہ تو محض لین دین پر مبنی ہیں اور نہ ہی عارضی ہیں بلکہ یہ گہرے اسٹریٹجک تعاون پر مبنی ہیں۔ چین کی حالیہ تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے چین کے 75 سال کا خلاصہ 3آر’ایس کے طور پر کیا: انقلاب چیئرمین ماؤ کے تحت، اصلاحات ڈینگ ژاؤپنگ کے تحت اور اب پُرامن عروج صدر شی جن پنگ کے تحت۔ چین کے عروج کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے قیادت کااعلیٰ معیار، پالیسی میں تسلسل، کورس میں تبدیلی کی منفرد صلاحیت، دوسروں سے سیکھنے کی صلاحیت اور پُرامن خارجہ پالیسی کواہم اسباب قرار دیا۔ اس موقع پر انہوں نےواشنگٹن، ڈی سی کے ایک امریکی تھنک ٹینک میں اپنے تجربے کا حوالہ دیا۔ جہاں سینیٹر مشاہد حسین سے پوچھا گیا: ‘آپ کس طرف ہیں، امریکہ یا چین؟’ جس پر انہوں نے جواب دیا: ‘پاکستان تاریخ کے صحیح رخ پر ہے اور موجودہ تاریخ کا رخ ایشیائی صدی سے متعین ہوتا ہے، جہاں چین ہمارا قابل اعتماد اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔’ انہوں نے اسحاق ڈار کے کردار کی بھی تعریف کی کہ انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ سطحی فورمز پر آواز اٹھائی اور غزہ سے فلسطینی طلباء کو پاکستان میں تعلیم کے لئے مدعو کیا۔
پاکستان میں تعینات چینی سفیر جیانگ زیادونگ نےاس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تقریب میں سینیٹر اسحاق ڈار کی سامووا سے 32 گھنٹے کے سفر کے باوجود بطور مہمان خصوصی شرکت پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا اور اس تقریب کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے چین کی گزشتہ 75 سالوں کی قابل ذکر کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح چین نے 800 ملین سے زائد لوگوں کو غربت سے نکالا اور 2021 تک انتہائی غربت کا خاتمہ کیا۔ چینی سفیر جیانگ نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے کامیابی کے سفر کو انتہائی خوش آئند قرار دیا جس میں اب تک 150 سے زائد ممالک شامل ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے اس منصوبے کو مشترکہ خوشحالی کے لیے چین کے عزم کا ایک اہم مظہر قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صدر شی جن پنگ کی چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم پر مبنی سوچ نے چین کی ترقی اور اس صدی میں اس ملکی استحکام کو کس طرح یقینی بنایا ہے۔ انہوں نے حالیہ ایس سی او کانفرنس میں چین کے وزیر اعظم کی میزبانی پر بھی شکریہ ادا کیا اور گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے درمیان گہرے اور جامع تعاون کی ضرورت پر زور دیا تاکہ منصفانہ ترقی اور مشترکہ ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے پاکستان میں چینی شہریوں اور منصوبوں کے تحفظ کے حوالے سے چین کی تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے دہشت گرد حملوں کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیا اور پاکستان کی حکومت سے درخواست کی کہ وہ ‘ دہشت گردی کے واقعات کے دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور یہ یقینی بنائے کہ ملزمان کی شناخت ہو، انہیں پکڑا جائے اور سزا دی جائے’۔
اپنے کلیدی خطاب میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے چین کی بے مثال ترقی کی رفتار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا چین کی تیز رفتار ترقی جدید تاریخ میں بے مثال ہے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے چین کے فعال کردار کو سراہا جس نے بیجنگ کو ایک آلودہ شہر سے صاف شہر میں تبدیل کیا جو کہ ایک دہائی سے بھی کم وقت میں ممکن ہوا۔ انہوں نے ون چائنا پالیسی کے حوالے سے پاکستان کی مستقل حمایت کے عزم کا اعادہ کیا اور کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت پر چین کا شکریہ ادا کیا۔ سینیٹر ڈار نے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تبدیلی کے اثرات پر زور دیتے ہوئے اسے چین کی جانب سے ایک ‘عظیم تحفہ’ قرار دیا۔ من گھڑت خبروں کے ذریعےسی پیک کو قرضوں کا جال قرار دینے کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے سی پیک کوپاکستان کی ترقی کا ایک اہم ستون قرار دیا اور چین کو ‘عالمی اقتصادی سپر پاور’ کے طور پر ابھرنے پر مبارکباد دی۔
ماہر اقتصادیات اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر عشرت حسین نے چین کے غیر معمولی سفر پر روشنی ڈالی اور کہا کہ چین نے دیہی معیشت سے شہری معیشت میں اور کمانڈ سے مارکیٹ کی طرف منتقل ہو کر بے مثال ترقی حاصل کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین کی کامیابی نے مغربی جمہوری ماڈل کو چیلنج کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے اندر سیاسی مرکزیت اقتصادی غیر مرکزیت کے ساتھ بقائے باہمی کر سکتی ہے جہاں 70 فیصد سے زائد عوامی اخراجات صوبائی حکومتوں کے ذریعے انجام دیے جاتے ہیں۔ 1.4 ارب کی آبادی کے باوجود چین نے خود کو عالمی معیشت میں ضم کر لیا اور سب سے بڑی برآمدی منزل اور 120 سے زائد ممالک کے لیے ایک کلیدی تجارتی شراکت دار بن گیا۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے چین کی بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کی تعریف کی جس نے ملک کو ریلوے اور بندرگاہوں کے ذریعے عالمی مارکیٹوں سے جوڑا اور اقتصادی ترقی کو مزید فروغ۔ انہوں نے میرٹ پر مبنی تقرریوں، انسانی وسائل میں سرمایہ کاری اور تعلیم و ٹیکنالوجی میں پیشرفت کو چین کی کامیابی کے اسباب قرار دیاجس میں چینی طلباء جدید ٹیکنالوجی میں بیرون ملک برتری حاصل کر رہے ہیں اور امریکہ میں 50 فیصد سے زائد پی ایچ ڈی طلباء چینی ہیں۔ پاکستان پر اس کے مثبت اثرات کو تسلیم کرتے ہوئےڈاکٹر عشرت حسین نے سی پیک کو قرضوں کا جال قرار دینے کی من گھڑت خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے چین کی سرمایہ کاری سے نمایاں فائدہ اٹھایا ہے جب کہ چین کا عدم مداخلت کا رویہ اور دیگر ممالک کی ضروریات کے مطابق ردعمل اس کی عالمی قیادت کو مضبوط کرتا ہے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئےپاکستان کے وفاقی وزیر برائے سمندری امور قیصر احمد شیخ نے پاکستان اور چین کے درمیان دیرپا تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے دونوں ممالک کو “آئرن برادرز” قرار دیا جو سدا بہار دوستی کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے سی پیک میں گوادر بندرگاہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
ترجمان وزارت خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے ساؤتھ-ساؤتھ تعاون کے لئے پاکستان کے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ترقی پذیر ممالک کے درمیان مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے چین کے ترقیاتی سفر سے سبق حاصل کرتے ہوئے استعداد میں اضافہ نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے ساؤتھ- ساؤتھ تعاون کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لئے ایک گلوبل ساؤتھ کی قیادت میں ایجنڈے کی ضرورت پر زور دیا جو ابھی تک بیرونی مدد پر انحصار کی وجہ سے پوری طرح سے حاصل نہیں کی جا سکی۔ ڈاکٹر بلوچ نے کہا کہ اقتصادی تبادلہ، موسمیاتی تبدیلی اور سفارت کاری جیسے شعبوں میں چین کی فعال شرکت نے ساؤتھ-ساؤتھ تعاون کو مضبوط کیا ہےاور چین گلوبل ساؤتھ ممالک کے درمیان براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں ایک قائد کے طور پر ابھرا ہے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما محبوب عالم نے 2013 سے چین کے عالمی طاقت بننے کے نمایاں عروج پر روشنی ڈالی اور اس ترقی کو قومی تجدید کے مرکوز وژن سے متصل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین 21ویں صدی کی قیادت کے لئے اچھی پوزیشن میں ہے جس میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) عالمی ترقی کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ عالم نے ایشیا بھر میں اسٹریٹجک شراکتوں کو فروغ دینے کے لئے چین کے عزم پر روشنی ڈالی جس کی مثال بنگلہ دیش کے ساتھ بی آر آئی کے فریم ورک کے تحت تعاون شامل ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بنگلہ دیش کی اسٹریٹجک محل وقوع بی آر آئی کے تحت بڑھتی ہوئی کنیکٹیویٹی کے چینی وژن کے لئے بہت اہم ہےجس سے چین کی مشترکہ ترقی اور علاقائی انضمام کے عزم کا اعادہ ہوتا ہے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو افسر ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ایکوسویلائزیشن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ شکیل احمد رامے نے غربت کے خاتمے کے حوالے سے چین کے تبدیلی لانے والے طریقہ کار کو اجاگر کیا اور اس کی کامیابی کو عملی اور عمومی فہم پر مبنی حل قرار دیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ چین نے ابتدا میں زمینی اصلاحات کو ترجیح دی جس کے بعد پیداوار کی قیمتوں میں اضافے اور لاگتوں میں کمی کے لئے اسٹریٹجک ایڈجسٹمنٹ کی گئی جس سے اقتصادی ترقی کے لئے سازگار ماحول پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 1949 میں چین کی خواندگی کی شرح محض 20 فیصد تھی جو جامع تعلیمی اقدامات کی بدولت اب تقریباً 100 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ صحت کو بھی ایک اہم شعبے کے طور پر توجہ مرکوز کی گئی جس سے ایک صحت مند ورک فورس اور آبادی کو یقینی بنایا گیا۔ انفراسٹرکچر بھی ایک اہم ستون تھا جس میں چین اب 177,000 کلومیٹر کی شاہراہوں کا حامل ہے اور ملک کا 97 فیصد حصہ جی4 نیٹ ورک سے منسلک ہے جو ملک بھر میں جاری معاشی و سماجی ترقی اور کنیکٹیویٹی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق سفارتکار اور وزیراعظم کے سابق خصوصی معاون برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے چین کے عروج کو عالمی استحکام کے لیے خطرہ سمجھنے کی غلط فہمیوں کو رد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ چین نے کبھی بھی بیرونی جارحیت کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ “خطرہ” کی کہانی ان لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے جو ایک یک قطبی عالمی نظام کی وکالت کرتے ہیں۔ مغربی طرز کے برعکس طارق فاطمی نے کہا کہ چین کے عالمی تعلقات کا ماڈل پرامن بقائے باہمی اور باہمی ترقی کو فروغ دیتا ہے جس سے عالمی استحکام کے فروغ میں چین کے منفرد نقطہ نظر ظاہر ہوتا ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ اور چیئرمین صنوبر انسٹیٹیوٹ اعزاز احمد چودھری نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود چین خود کو گلوبل ساؤتھ کا حصہ مانتا ہےاور ترقی پذیر ممالک کو اپنی صلاحیتیں مضبوط کرنے اور بیرونی سہولتوں پر انحصار کم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک چین کے اس نقطہ نظر سے استفادہ حاصل کرتے ہیں اور اسے خود انحصاری اور استقامت کے نمونے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جیسے جیسے چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک متحد ہو رہے ہیں انہیں مغرب کی جانب سے تنقید اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے حوالے سے جو اکثر غلط طور پر عالمی معیشت کی “ڈی-ڈالرائزیشن” کی کوششوں کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مغرب کو تسلیم کرنا چاہیے کہ عالمی حالات بدل رہے ہیں۔ پاکستان ایک اہم اقتصادی مقام پر ہےاور انہوں نے پاکستان کے ایس سی او میں کردار پر خوشی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ پاکستان کو جلد ہی برکس میں شامل کیا جائے گا جس سے عالمی اتحادوں میں پاکستان کی مطابقت کا اظہار ہوتا ہے۔
مالدیپ کے رکن پارلیمنٹ احمد طارق نے عالمی سیاست کو تشکیل دینے اور دنیا کو کثیر قطبی نظام کی طرف لے جانے میں چین کے اہم کردار کو اجاگر کیا جس میں صدر شی جن پنگ اس تبدیلی کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بدلتا ہوا عالمی نظام چھوٹے ممالک کو نظر انداز نہیں کرتا بلکہ انہیں عالمی ترقی کے منظر نامے میں شامل کرتا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعے چین نے اعتماد پر مبنی تعلقات کو فروغ دیا ہے اور شراکت دار ممالک بشمول مالدیپ میں بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ احمدطارق نے چین کی علاقائی سالمیت کے احترام کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا طریقہ کار تنازعات کی پیچیدگیوں سے آزاد ہے۔ مالدیپ اور چین کے درمیان تعاون باہمی ہے جس میں دونوں ممالک مقامی کرنسیوں میں تجارت کے معاہدوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جس سے تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ مالدیپ کی اسٹریٹیجک حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کو معاشی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ان کی بڑھتی ہوئی شراکت داری کا ثبوت قرار دیا۔
صدر اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر میجر (ر) جنرل رضا محمد نے “قواعد پر مبنی عالمی نظام” کے تصور پر سوال اٹھایا کہ اصل میں کون سے قوانین اور کس کا نظام بین الاقوامی تعلقات کی حکمرانی کرتا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ”پرسونا نان گراٹا” قرار دینے کے حالیہ اعلان کو بین الاقوامی اصولوں کے چنیدہ اطلاق کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا۔ قومی سلامتی کی حکمت عملیوں کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین کا نقطہ نظر “قومی احیاء” پر مرکوز ہے جو داخلی ترقی اور عدم مداخلت پر مبنی ہے جبکہ امریکہ “سب سے پہلے امریکہ” کے اصول کو اپناتا ہے جو طاقت کے ذریعے امن اور امریکی انفرادیت کی وکالت کرتا ہے۔ ڈاکٹر رضا نے کہا کہ امریکی حلقوں میں یہ بات اچھی طرح سے تسلیم کی گئی ہے کہ چین کے پاس مختلف شعبوں میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہےجس سے چین ایک اہم عالمی ہم منصب کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری ، وزارت موسمیاتی تبدیلی عائشہ حمیرہ چوہدری نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے چین کی قیادت کو سراہتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان کو اس کے فعال طرز عمل سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے اثرات جن سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے سیاسی اور اقتصادی استحکام میں رکاوٹ آئی انہوں نے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبوں کی اہمیت پر زور دیا جو علاقائی رابطے کے حوالے سے پاکستان کے عزم سے ہم آہنگ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سی پیک 2.0 کی شروعات کر رہا ہے اور وزارت کا مقصد عالمی تعاون کو فروغ دینا اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی وزارت نے ایک الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی متعارف کروائی ہے جس میں اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی استحکام کے ساتھ متوازن رکھنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ بہت سے بی آر آئی منصوبے پہلے سے ہی ان اصولوں کی عکاسی کرتے ہیں اور ایک سبز مستقبل کی حمایت کے لئے ماحولیاتی استحکام اور ای ایس جی فریم ورک کو شامل کرتے ہیں۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئےڈاکٹر اشفاق حسن خان، ڈی جی، نسٹ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو “گلوبلائزیشن 2.0” قرار دیا اس کے بنیادی فلسفے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا: “آپ کی خوشحالی آپ کے پڑوسی کی خوشحالی پر منحصر ہے”، جو مضبوط رابطے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے باہمی انحصار کے اہم کردار پر زور دیا اور اس بات کی نشاندہی کی کہ چین کو تنہا کرنا ناقابل عمل ہے، کیونکہ چین 120 سے زائد ممالک کے لئے سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئےسینٹ آف پاکستان کی پارلیمانی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے غربت کے خاتمے میں چین کی غیر معمولی کامیابی اور اس کے وسیع رابطہ کاری کے عزائم کو سراہا جو یورپ سے کہیں آگے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے چین کے سافٹ پاور کے جدید طرز کو “سافٹ پاور 2.0” کے طور پر بیان کیا جو روایتی اثر و رسوخ سے آگے بڑھ کر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور اقتصادی شراکت داریوں کو بھی شامل کرتا ہے۔ چین اپنے اضافی وسائل کو اسٹریٹجک انداز میں برآمد کرکے اپنی عالمی موجودگی کو مستحکم کر رہا ہےخاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعے جس میں دنیا بھر میں 1.3 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ سینیٹر شیری رحمان نے سی پیک کو بی آر آئی کا ایک تبدیلی لانے والا عنصر قرار دیا جس نے پاکستان کی معیشت میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، اس کی توانائی کی گنجائش کو 30 فیصد تک بڑھایا۔ یہ شراکت پائیدار ترقی کو فروغ دینے اور علاقائی روابط کے لئے ہدفی سرمایہ کاری کی قوت کی عکاسی کرتی ہے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیپال کی وفاقی پارلیمنٹ کے رکن اور نیپالی وزیر اعظم کے تعلقات عامہ کے سابق مشیر اچیوت پرساد مینالی نے پورے خطے میں امن اور سلامتی برقرار رکھنے میں چین کے کردار کو اجاگر کیا اور اس کے ترقی پذیر ہمسایہ ممالک کے لئے فوائد پر زور دیا۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) میں نیپال کی شمولیت پر بات کی اور نشاندہی کی کہ یہ اقدام بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں اہم رہا ہے۔ نیپال میں بی آر آئی کے تحت کئی سڑک کے منصوبے پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں جبکہ دیگر منصوبے اب بھی جاری ہیں جو نیپال کے ترقیاتی سفر پر چین کے رابطے کے عزائم کے مثبت اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکریٹری اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنرل بورڈ آف انویسٹمنٹ ڈاکٹر عارفہ اقبال نے زور دیا کہ سی پیک کو سمجھنے کے لئے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی)پر وسیع تر نظر ڈالنا ضروری ہے جو ایک عالمی فریم ورک ہے جو روایتی امدادی ماڈلز سے شراکت داری اور ساؤتھ-ساؤتھ تعاون کی طرف ایک تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ صدر شی جن پنگ کے 2015 کے دورہ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عارفہ اقبال نے ان کے اُس ویژن کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے اس تعلق کو “سد ا بہار” سے بڑھا کر “سدا بہار اسٹریٹجک الائنس” بنانے کی بات کی جو سی پیک کے ذریعے ممکن ہوا۔ انہوں نے سی پیک کی اہم وژن پر روشنی ڈالی جو چھ بی آر آئی کاریڈورز میں سے واحد دو طرفہ کاریڈور ہے اور جو سمندری اور زمینی راستوں کے درمیان ایک اہم رابطہ کاری کاکام کرتا ہے۔ ڈاکٹر عارفہ اقبال نے پاکستان کی مقامی مارکیٹ کو چین سے منتقل ہونے والی صنعتوں کا فائدہ اٹھانے کے لئے تیار کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور اس بات کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ سی پیک کے ذریعے پیدا ہونے والی اضافی توانائی کو جذب کرنے کے لئے پاکستان کی صنعتی بنیاد کو بڑھایا جائے تاکہ پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئےایچ بی ایل کے انٹرنیشنل ڈپارٹمنٹ کے سربراہ فرحان طالب نے چین اور پاکستان کے درمیان مضبوط ثقافتی روابط کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں 25 مستند چینی ریستوران ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان متحرک تبادلوں کا ثبوت ہیں۔ انہوں نے سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا فلیگ شپ پروجیکٹ قرار دیا اور اپنے منفرد تجربے کا ذکر کیا جس میں انہوں نے ایچ بی ایل کے نمائندے کی حیثیت سے چین میں واحد پاکستانی بینک کی شاخ کے ساتھ کام کیا جس نے انہیں سی پیک کے اثرات کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع دیا۔ انہوں نے نے ایچ بی ایل کی اسٹریٹجک شراکت داریوں کا ذکر کیا جو بینک آف چائنا اور چائنا انٹرنیشنل کیپیٹل کارپوریشن (سی آئی سی سی) کے ساتھ ہیں جس نے بینک کو اس تبدیلی کے رشتے کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ چین جو دنیا کی سب سے بڑی گرین بانڈ مارکیٹ ہے، پائیدار فنانس میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے، جو سی پیک کے ماحول دوست ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ ہے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئےبی آر آئی گرین ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ژانگ جین یو نے عالمی سطح پر بلند موسمیاتی اہداف کی حمایت میں گرین اور کم کاربن اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو گرین کولیشن (بی آر آئی جی سی) کے کام کو بھی سراہا جو بی آر آئی کے منصوبوں میں پائیدار ترقیاتی طریقوں کو فروغ دیتا ہے۔ ژانگ نے صدر شی جن پنگ کی 2021 میں “کوئی نیا کوئلہ” پالیسی کے اعلان کا حوالہ دیا جو صاف توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی کے لئے ایک اہم عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے چین کی شمسی اور ہوا کی توانائی میں وسیع سرمایہ کاری کو نمایاں کیا، جو قابل تجدید توانائی اور بی آر آئی کے پارٹنر ممالک اور اس سے آگے ایک کم کاربن مستقبل کے لئے چین کی قائدانہ حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔
پائیدار ترقیاتی پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے عالمی عدم مساوات کو حل کرنے کے لئے مالیاتی اور موسمیاتی پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اقتصادی، توانائی اور موسمیاتی عدم مساوات کو حل کرنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ ایسے موسمیاتی مالیاتی حل تلاش کیے جائیں جو ترقی پذیر ممالک کے لئے قرض کے بوجھ میں اضافہ کیے بغیر ہوں اور سرکاری ترقیاتی امداد (او ڈی اے) کے تحت ہوں۔
اس کانفرنس میں پاکستان-چائنا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے”چین کے 75 سال: ماؤ زیڈونگ سے شی جن پنگ تک” کے عنوان سے ایک اہم رپورٹ بھی لانچ کی جس میں پاکستان اور چین کے معروف ماہرین کے تحریر کردہ بصیرت آمیز ابواب شامل ہیں۔ کانفرنس میں 250 سے زائد شرکاء نے شرکت کی جن میں اکیڈیمیا، تھنک ٹینکس ،میڈیا ، صنعت کار اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنےوا لے افراد شامل تھے۔ اس کے علاوہ اس تقریب میں متعدد سفارت خانوں کے سفراءنے بھی شرکت کی جس میں عالمی سطح پر چین کے مثبت کردارپر روشنی ڈالی گئی۔